'غیرمنتخب مشیر اور معاونین خصوصی حکومتی کمیٹیوں کی سربراہی نہیں کر سکتے'
اسلام آباد: وفاقی حکومت کے کچھ غیر منتخب اراکین کی سربراہی میں جاری نجکاری کے عمل کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو نجکاری سے متعلق کابینہ کی کمیٹی کے قیام سے متعلق گزشتہ سال کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک درخواست پر اپنے مختصر حکم میں فیصلہ دیا ہے کہ غیر منتخب مشیر اور معاونین خصوصی حکومتی کمیٹیوں کی سربراہی نہیں کرسکتے ہیں اور وزیر خزانہ کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی کا نوٹیفکیشن روک دیا ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے معاونین و مشیروں کا تقرر سپریم کورٹ میں چیلنج
اس حوالے سے تفصیلی حکم آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔
رکن قومی اسمبلی کی جانب سے دائر درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس عامر فاروق نے مؤقف اختیار کیا کہ غیر منتخب مشیر اور معاونین خصوصی ایگزیکٹو کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
رکن اسمبلی رانا اردات شریف خان نے اپنے وکیل بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا کے ذریعے پیش کی گئی درخواست میں عبدالحفیظ شیخ کی بطور چیئرمین اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تجارت اور سرمایہ کاری عبد الرزاق داؤد اور وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین کی نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے تقرری کو چیلنج کیا تھا۔
استغاثہ کے مطابق یہ طے شدہ قاعدہ ہے کہ کابینہ وزیر اعظم اور اب وزرا پر مشتمل ہوتی ہے جو پارلیمنٹ کے منتخب اراکین ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے 4 معاونین خصوصی دوہری شہریت کے حامل
رکن اسمبلی اردات شریف نے 25 اپریل 2019 کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات عبدالحفیظ شیخ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد، وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور سادگی ڈاکٹر عشرت حسین، وزیر مواصلات مراد سعید، سینیٹر فروغ نسیم، وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر، وزیر نجکاری محمد میاں سومرو اور وزیر برائے بجلی عمر ایوب خان نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اراکین کے طور پر شامل ہیں۔
تینوں مشیروں عبدالحفیظ شیخ، عبدالرزاق داؤد اور ڈاکٹر عشرت حسین کو پاکستان کے عوام نے منتخب نہیں کیا اور ان کی نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی میں شمولیت کو عدالت کے روبرو چیلنج کیا گیا تھا۔
بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا نے استدلال کیا کہ پاکستان پر عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی حکومت کی جاسکتی ہے اور وہ شخص جو پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے، نہ کابینہ کا حصہ بن سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کمیٹیوں کا۔
درخواست میں کہا گیا کہ وزرا کے برخلاف مشیر وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہیں، وہ حلف نہیں اٹھاتے، وہ آئین کے آرٹیکل 91(6) کے تحت پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہیں، وہ قابلیت کے تابع نہیں ہیں اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اہل یا نااہلی بھی قرار نہیں دیے جا سکتے، تقرر سے پہلے اور بعد میں مشیر اپنے اثاثوں اور واجبات کے بارے میں بیانات جمع کروانے کے پابند نہیں ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی جانچ پڑتال کے تابع نہیں ہیں۔
اگست کے آغاز میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ مرزا شہزاد اکبر کے تقرر کے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم کے غیرمنتخب مشیر اور معاونین خصوصی انتظامیہ یا انتظامی اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں، حکومت کے کام کاج اور لوگوں کے منتخب کردہ منتخب نمائندوں کو وزارت کے امور چلانے کا حق حاصل ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے معاون خصوصی کی بریت کے خلاف نیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
چیف جسٹس نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ کسی بھی شخص کو مشورے دینے کے لیے منتخب کرنا وزیر اعظم کا استحقاق ہے، تاہم انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ وزیر اعظم کی ٹیم کے کسی غیر منتخب رکن کی جانب سے کسی قانونی حق کے بغیر ایگزیکٹو اختیارات کی انجام دہی کو غیرقانونی تصور کیا جائے گا اور اس وجہ سے اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں اعلان کیا گیا کہ کسی وزیر کی حیثیت سے مشیر کا تقرر ان کو اختیارات نہیں دیتا ہے کہ وہ وزیر کی حیثیت سے کام کرے یا رولز آف بزنس 1973 کے تحت اس طرح سے امور انجام دے۔