راوی ریور فرنٹ منصوبے کو حاصل ’قانونی استثنیٰ‘ پر سوالات اٹھ گئے
لاہور: سول سوسائٹی، ماہرین قانون اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو ان کے بقول راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کو دی گئی استثنیٰ اور عدالتوں کے دائرہ کار کو روکنا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ روڈا ایکٹ 2020 کو آئین پاکستان میں بیان کیے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ ایسی مخصوص شقوں میں ترمیم کرے جو اتھارٹی کو انتہائی درجے کا اختیار دیتا ہے جبکہ علاقے میں لوگوں کے حقوق کو کمزور کر رہا ہے۔
اس حوالے سے لاہور کنزرویشن سوسائٹی سیکریٹری (انفارمیشن) ڈاکٹر اعجاز انور نے ڈان سے گفتگو میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دریائے راوی کے ساتھ لاہور میں اتنے بڑے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے اتھارٹی کو اس طرح کے انتہائی درجے کے اختیارات دینے پر مجھے حیرانی ہوئی، یہ ہمارے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے جو ہم شہریوں کو مختلف بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور: وزیراعظم نے راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا
روڈا ایکٹ 2020 کے مطابق راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کی شق 48 اس کے چیئرمین، ایگزیکٹوز اور تمام دیگر کو بااختیار بناتا ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ لے سکتے ہیں جو کسی قانون کی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح شق 49 عدالتوں کے دائرہ کار کو روڈا سے متعلق معاملات پر سماعت سے روکتا ہے۔
’اتھارٹی اور اس کے ملازمین کی استثنیٰ‘ کے عنوان سے ایکٹ کی شق 48 کہتی ہے کہ اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی کام نیک نیتی یا اس کے ارادے سے کیا گیا ہو اس پر اتھارٹی، چیئرمین، ڈائریکٹر جنرل، کسی رکن، افسر، ملازم، ماہر یا کنسلٹنٹ کے خلاف کوئی مقدمہ، پروسیکیوشن یا کوئی دیگر قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔
اسی طرح شق 49 جس کا عنوان ’عدالتوں کے دائرہ کار کو روکنا‘ ہے میں کہا گیا کہ اتھارٹی کے ذریعے یا اس کے اشارے پر ایکٹ کے تحت نیک نیتی میں کوئی کام کیا جاتا یا کوئی ایکشن لیا جاتا تو کسی عدالت یا دیگر اتھارٹی کو اس کی قانونی حیثیت سے متعلق سوال کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر اعجاز انور کا کہنا تھا کہ ایکٹ کی مندرجہ بالا شقیں واضح طور پر حکومت کی طرف سے کسی بدنیتی کے حصے کو ظاہر کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’قوانین میں اس طرح کی شقوں کو متعارف کروانے کا مقصد یہی ہے کہ آپ لوگوں کے حقوق کے خلاف کچھ کرنے کو تیار ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ اس طرح کے قوانین کا نوٹس لیں جو آئین سے متصادم ہیں۔
ادھر سول سوسائٹی ایکٹوسٹ فوزیہ قریشی نے بھی ایکٹ کی شق 48 اور 48 پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ میں حیران ہوں کہ اس طرح کا کونسا دوسرا ایکٹ ہے جس کی ایسی شقیں ہیں، ہماری زیادہ تر قانون سازی ان کے مشاورتی بورڈز کو اختیار دیتی ہیں جو چیئرمین کے ذریعے چلتے ہیں لہٰذا وہ آگے بڑھ کر کوئی فیصلہ بھی منظور کرتے ہیں۔
وہی پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے صوبائی جنرل سیکریٹری جو راوی اربن ڈیولپمنٹ متاثرین کمیٹی میاں مصطفیٰ رشید کے مطابق روڈا کے لامحدود اختیارات عیاں ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے راوی اربن ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا افتتاح کردیا
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اتھارٹی کے معاملات میں عدالتوں کے اختیارات کو ختم کرنے میں حکمرانوں نے آمروں کو شکست دے دی، میرے خیال میں کسی آمر نے کسی ادارے کو اس طرح کے لامحدود اختیارات نہیں دیے جیسا موجودہ حکومت کی جانب سے دیے گئے۔
نامور وکیل اور ماحولیات کے کارکن رافع عالم کا کہنا تھا کہ عدالتیں عام طور پر اس طرح کے سیکشنز/ شقوں کو اہمیت نہیں دیتیں کہ یہ آئین سے متصادم ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہاں مختلف ناقص قوانین ہیں جنہیں عدالتیں اہمیت نہیں دیتیں۔
رافع عالم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی اتھارٹیز بنانے کا مقصد بغیر کسی تعطل کے منصوبوں اور ملازمتوں کو مکمل کرنا ہے۔