• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

وزیرِاعظم پروگرام کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف کیا کوئی کارروائی ہوگی؟

شائع December 3, 2020

راولپنڈی کے رہائشی محمد منیر ایک ماہر شیف ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے فاسٹ فوڈ کا ایک ریسٹورنٹ بڑی کامیابی سے چلا رہے تھے کہ کورونا آگیا اور ان کے جمے جمائے کاروبار کی دھجیاں بکھیر گیا۔

شروع میں گاہک کم ہوئے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد تو جیسے دکان ویران ہی ہوگئی۔ چند ماہ تو انہوں نے اپنی جمع پونجی سے دکان کا کرایہ اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کیں، مگر وہ اپنی جب سے کب تک یہ سب کچھ کر پاتے؟ آخر دکان کا سامان بیچنا پڑا اور منیر سڑک پر آگئے۔

اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انہوں نے بہت تگ و دو کی مگر کوئی انتظام نہ ہوا۔ نوکریاں تھیں نہیں اور نئے کاروبار کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ ان کی ملاقات ایک دوست سے ہوئی جو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے دفتر میں ملازم تھا۔

اس نے انہیں بتایا کہ دارالحکومت میں سبزی اور فروٹ کے اسٹال الاٹ کیے جارہے ہیں، اور الاٹمنٹ کی واحد شرط یہ ہے کہ سبزی اور فروٹ سرکاری نرخوں پر بیچا جائے۔

منیر فوراً تیار ہوگئے۔ مگر سرکاری نرخوں پر مال بیچنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ مال کم قیمت پر خریدیں۔ اگلے کئی دن انہوں نے منڈی میں گزارے۔ یہاں انہیں اندازہ ہوا کہ پرچون پر مال بہت مہنگا ہے اور شاد ہی سرکاری ریٹ پر دستیاب ہے۔ آڑہتی فقط اتنا ہی مال اپنے گودام سے منڈی میں لاتا ہے کہ اچھے نرخ پر بک جائے۔ اس طرح ایک مصنوعی قلت برقرار رہتی ہے

منیر خوش قسمت تھے کہ ان کے علاقے کا ایک آڑہتی انہیں مل گیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ منیر کو پرچون مال تھوک کے مول فراہم کرے گا۔

منیر نے اپنے دوست سے رابطہ کیا جس نے ان کا نام درج کروا کر انہیں سرکاری اسٹال کا ایک بینر لا دیا۔

انہوں نے کسی طرح کچھ رقم اکٹھی کی اور اسٹال کے لیے چند استعمال شدہ میزیں خریدنے کے بعد منڈی سے مال خرید کر اسٹال شروع کردیا۔

منیر کے اچھے رویے نے گاہکوں کے دل جیت لیے اور سرکاری ریٹ پر تازہ مال ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔

2 دن کے بعد شام میں ایک صاحب ان کے پاس آئے اور ان سے اسٹال کے بارے میں پوچھا اور پیسوں کا مطالبہ کیا۔ ان صاحب کے پاس وائر لیس سیٹ دیکھ کر منیر چونکے تو ضرور لیکن شائستگی سے آنے والے کو بتایا کہ ان کا اسٹال سرکاری طور پر منظور شدہ ہے۔

منیر نے اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اپنے کام میں جت گئے۔

وہ روزانہ صبح 4 بجے اٹھ کر منڈی جاتے اور سبزی پھل خریدتے۔ کئی گھنٹے لگاکر انہیں اسٹال پر سجاتے اور سارا دن مال بیچتے۔ اگرچہ کام بہت محنت طلب تھا لیکن وہ خوش تھے کہ انہیں حلال روزی میسر آگئی تھی۔

لیکن منیر کی خوشی عارضی ثابت ہوئی، کیونکہ ایک دن جب وہ منڈی سے مال لاکر اسٹال سجا ہی رہے تھے کہ اچانک ایک گاڑی ان کے اسٹال کے سامنے آکر رک گئی۔ اس گاڑی سے کوئی 6 لوگ برآمد ہوئے اور انہیں دبوچ لیا۔

’کس کی اجازت سے یہ اسٹال لگایا ہے؟‘، کاٹن کے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نووارد دھاڑا۔

’تیری جرأت کیسے ہوئی؟‘ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا وائر لیس سیٹ لہراتے ہو ئے پوچھا۔

یہ سب کچھ دیکھ کر منیر انتہائی سہم چکے تھے اور انہوں نے منمناتے ہوئے بتایا کہ ’یہ میں نے ضلعی انتظامیہ کے کہنے پر لگایا ہے، اور یہ سرکاری اسٹال ہے‘۔

منیر نے پوری کوشش کی کہ وہ اس پورے معاملے سے اپنے دوست کو مطلع کریں، لیکن رابطہ نہ ہوسکا کیونکہ ان کے دوست کا موبائل بند تھا۔

’بند کرو اسے‘، سفید شلوار قمیض والے صاحب دوبارہ دھاڑے، جنہوں نے اپنا نام کھوکھر اور محکمہ میٹروپولیٹن کوپریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) سے بتایا تھا۔

ابھی انہوں نے فقرہ ختم بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی 2 درجن سے زائد لوگ قریب کھڑے ڈالے سے اترے اور لمحوں میں منیر کے اسٹال کو اٹھایا اور گاڑی میں ڈال دیا۔ اس کارروائی میں ان کا سارا فرنیچر ٹوٹ گیا اور بینر اور تمبو بڑی بے رحمی سے نوچ دیے گئے، جبکہ پھل اور سبزیاں مالِ غنیمت کی طرح گاڑیوں میں الٹ دیا گیا۔ جس تیزی سے وہ لوگ آئے تھے اسی تیزی سے نکل بھی گئے۔ بس یوں سمجھیے کہ کچھ ہی منٹوں میں منیر لٹ گئے اور ایک بار پھر سڑک پر آگئے تھے۔

کچھ ہی منٹوں میں منیر لٹ گئے تھے
کچھ ہی منٹوں میں منیر لٹ گئے تھے

وہ کافی دیر ہکا بکا کھڑے رہے۔ جب ساتھ کے ٹھیلے والوں نے انہیں جھنجھوڑا تو انہیں ہوش آیا۔ منیر نے اپنی دانست میں کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا تھا۔ انہوں تو نے ضلعی حکومت کو درخواست دی تھی، پھر ان کے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ ان کے ساتھ مجرموں والا سلوک کیوں ہوا؟ اب اس بھاری نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا؟ یہ وہ سوالات تھے جن کے جواب دوسرے اسٹال والوں کو بھی معلوم نہیں تھے۔

'بھائی ایم سی آئی کو پیسے دیے بغیر اسلام آباد میں کوئی اسٹال نہیں چل سکتا، ہم نے اپنا اسٹال 2 لاکھ روپے دے کر کھولا ہے، تم نے بغیر پیسے دیے اسٹال کیسے لگا لیا؟ بڑا آیا حلال کمائی کرنے والا،' ایک عمر رسیدہ شخص بولا۔

منیر مزید دل برداشتہ ہوگئے۔ کسی جاننے والے کی وساطت سے ایم سی آئی میں رابطہ کیا تو معاملہ پیسوں کا ہی نکلا۔ ضلعی انتظامیہ میں ملازم ان کا دوست بھی سوائے اظہارِ افسوس کے کچھ نہیں کرسکا۔

ٓاسلام آباد میں ہر وقت 500 سے زائد اسٹال سڑک کے کناروں پر موجود رہتے ہیں۔ مگر ایم سی آئی نے فقط انہی کا سرکاری بینر تلے لگا اسٹال کیوں برباد کیا؟ منیر کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کریں۔ ان کا اسٹال ناصرف ضائع کردیا گیا تھا بلکہ ان کی فریاد کے باوجود ایم سی آئی نے انہیں دوبارہ اسٹال لگانے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔

یاد رہے کہ منیر کا یہ اسٹال وزیرِاعظم کی اسکیم کے تحت لگایا گیا تھا۔ وہ اسکیم جس کا مقصد عوام کو سرکاری نرخوں پر اشیا کی فراہمی تھا۔ منیر کو ایک اہلکار نے بتایا کہ اس فلاحی اسکیم کو ایم سی آئی کے افسروں نے مبیّنہ طور پر رشوت کا ذریعہ بنا لیا تھا۔

جب اسٹال کو تباہ کردیا گیا
جب اسٹال کو تباہ کردیا گیا

کچھ نجی کمپنیوں کو درمیان میں ڈال کر پیسے بٹورنے شروع کردیے تھے اور یوں اسٹال خریدنے والے دوگنے داموں پر مال بیچ کر اپنے پیسے پورے کررہے تھے۔

ایم سی آئی یا میٹروپولیٹین کارپوریشن اسلام آباد 2015ء میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے ذریعے وجود میں آئی تھی۔ سی ڈی اے کے کئی محکمے اور عملہ اس نئے ادارے کو منتقل کردیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شیخ عنصر کو ایم سی آئی کا سربراہ اور اسلام آباد کا پہلا میئر مقرر کیا۔ ساتھ ہی ان کو سی ڈی اے کا عہدہ بھی دے دیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں تو کام اچھے سے چلتے رہے لیکن جونہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آئی، ایم سی آئی کی انتظامیہ نے ہر کام میں روڑے اٹکانے شروع کردیے، اور یوں جلد ہی دونوں میں ٹھن گئی۔

ایک طویل چپقلش کے بعد اس سال اکتوبر میں شیخ عنصر نے تو استعفی دے دیا لیکن ادارے کی سربراہی اب بھی مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی میئر اعظم خان کے پاس ہے۔

سی ڈی اے اور ایم سی آئی دونوں ادارے محکمہ داخلہ کے ماتحت ہیں، لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر سی ڈی اے اور ایم سی آئی کی مخاصمت کا خمیازہ اسلام آباد کے شہری بھگت رہے ہیں۔

معاملات سلجھانے کے لیے محکمہ داخلہ نے ایم سی آئی کے کئی محکمے 6 ماہ کے لیے سی ڈی اے کو منتقل کردیے ہیں تاہم اب بھی میونسپل ایڈمنسٹریشن ڈائرکٹریت، صحت اور دوسرے ادارے ایم سی آئی کے ہی ماتحت ہیں۔

کیا دن دیہاڑے کوئی سرکاری محکمہ اس طرح کی لوٹ مار کرسکتا ہے؟ جب یہ جاننے کے لیے ہم نے ایم سی آئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے رشوت کے الزامات کی تو تردید کی، مگر یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اگر منیر ضلعی انتظامیہ کی اجازت سے سرکاری ریٹ پر پھل فروٹ سرکاری بینر کے تحت بیچ رہے تھے تو ان کا اسٹال کیوں تباہ کیا گیا؟

ترجمان نے بتایا کہ اسلام آباد میں پھل سبزی کی گرانی کی روک تھام کے لیے وزیرِاعظم کی ہدایت پر 2 ماہ کے لیے اسٹال الاٹ کیے گئے ہیں تاہم وقت کی قلت کے باعث ان اسٹالوں کی تقسیم کسی بھی ضابطے اور کارروائی کے بغیر کی گئی ہے۔

اگرچہ انہوں نے رشوت کے الزامات کی تو سختی سے تردید کی مگر جب پوچھا کہ اگر معاملہ رشوت کا نہیں تھا تو منیر کا اسٹال کیوں تباہ کیا گیا جبکہ وہ سرکاری نرخوں پر تازہ مال فروخت کررہے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ منیر کا گناہ یہ تھا کہ وہ ان سے آکر نہیں ملے۔

اب اگر اسٹالوں کے لیے کوئی سرکاری دستاویز درکار نہ تھی تو ملنے سے ان کا کیا مطلب تھا؟ یہ سوال کئی بار پوچھنے پر بھی تشنہ ہی رہا۔

دوگنی قیمت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ریٹ سے زیادہ چارج کرنے پر وہ کئی اسٹال مالکان کو جیل بھیج چکے ہیں۔ اگر ان کے الاٹ کردہ اسٹالوں پر بھی زیادہ قیمت پر فروخت جاری ہے تو پھر سرکاری ریٹ پر سبزی پھل بیچنے والے منیر کا اسٹال کیوں ختم کیا گیا۔ اس بات کا جواب بھی موصول نہیں ہوا۔

ترجمان نے کہا کہ اسٹال 2 ماہ کے لیے الاٹ کیے گئے ہیں اور جلد ہی ختم کردیے جائیں گے۔ لیکن اسلام آباد میں 2 درجن سے زائد لگے اسٹالوں کو دیکھ کر ایسا بالکل نہیں لگتا، کیونکہ اکثر اسٹال تمبو سے بنائے گئے ہیں، اور ان کو بنانے میں اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں تو ضرور خرچ ہوئے ہوں گے۔ کچھ لوگوں نے تو اپنے اسٹالوں کو خوبصورت بنانے کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے اور بڑے بڑے احاطوں کو مال سے بھرا ہوا ہے۔

تو کیا یہ ساری سرمایہ کاری فقط 2 ماہ کے لیے ہے؟ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایم سی آئی پر بدعنوانی کے الزامات لگے ہوں مگر چونکہ سستے اسٹال وزیرِاعظم پروگرام کے تحت لگائے گئے ہیں، اس لیے پریشانی زیادہ ہے۔

منیر اور ان جیسے دوسرے افراد امید کرتے ہیں کہ وزیرِاعظم اس واقعے کا نوٹس لیں گے اور تحقیقات کروائیں گے۔ اگر ایم سی آئی کے اسٹاف کے اثاثوں کی چھان بین بھی ہوجائے تو شفافیت کی جملہ شرائط بھی پوری ہوجائیں گی۔

عاطف خان

صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

Polaris Dec 04, 2020 04:39am
Thanks to Atif Khan for writing this article on an extremely sad situation. Hopefully, someone sincere will take notice and resolve this issue. The MIC should have a section to resolve and receive any problem received from the public.
Sadaqat Malik Dec 04, 2020 10:50am
Excellent sir phli dfa ksi ne sahe ksi idary ke corruption kay khelaf likha hai , ap isi trh her department ko dekhen to her trf corruption ka bazar nazar aye ga. operation cleanup ke zarorat hai
RAIF Dec 04, 2020 10:59am
Muneer ko Prime Minister ke khilaaf case karna chaahye.. wese bi kuch ho nahi raha..
KHAN Dec 04, 2020 11:50am
ہمارے ملک میں ہمیشہ سے الاٹمنٹ کا بڑا ہی مسئلہ رہا ہے۔ کوئی اسپتال کے لیے پلاٹ الاٹ کرا کے اس پر پلازہ قائم کر لیتا ہے تو کوئی چھاؤنی اور شہدا کے نام پر الاٹ کردہ زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا لیتا ہے۔لائرزکلب کے لیے الاٹ کردہ پلاٹ پر شادی ہال چل رہے ہیں۔ ایک جانب سڑکوں پر پارکنگ کے نام پر شہریوں سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے تو دوسری جانب ہر سڑک پر ایک شخص نے درجنوں پتھارے لگاکر کرایے پر دیے ہوتے ہیں مگر اس کو ہٹانے کے لیے انتظامیہ حرکت میں نہیں آتی۔ کوئی عام شخص ایک ٹھیلہ بھی لگا لے تو اس کے خلاف تجاوزات کے نام پر کارروائی ہو جاتی ہے۔
Salazar Dec 04, 2020 01:37pm
Corruption is permanent and deeply rooted in our society. We are going nowhere. We will go nowhere.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024