• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا

شائع December 2, 2020
نواز شریف اس وقت لندن میں موجود ہیں—فائل فوٹو: اے پی
نواز شریف اس وقت لندن میں موجود ہیں—فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں اشتہاری قرار دے دیا۔

اس حوالے سے عدالت عالیہ کے جج جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہیں کہ اشتہاری قرار دینے سے متعلق مختصر تحریری فیصلہ بعد میں جاری کریں گے۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں اپیلوں پر سماعت کی۔

اس دوران دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر یورپ مبشر خان نے عدالت میں بیان قلمبند کروایا اور سب سے پہلے ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے گواہ سے سچ بات کرنے کا حلف لیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی مؤخر

دوران سماعت ڈائریکٹر یورپ دفتر خارجہ مبشر خان نے کچھ دستاویزات پیش کیں جنہیں عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

مبشر خان نے بتایا کہ میں نے اس عدالت سے جاری نواز شریف کے اشتہارات موصول کیے، جس کے بعد میں نے اشتہارات دفتر خارجہ سے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بھیجے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن نے 9 نومبر کو دفتر خارجہ کو جواب دیا، رائل میل کے ذریعے نواز شریف کو اشتہارات کی تعمیل کے حوالے سے بتایا گیا۔

مبشر خان کا کہنا تھا کہ 30 نومبر کو رائل میل کے ذریعے اشتہارات کی تعمیل کی تصدیق شدہ کاپی موصول ہوئی۔

اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ روزنامہ جنگ لندن کو خط لکھا گیا اور نواز شریف کی طلبی کے اشتہارات تمام اخبارات میں انگریزی میں شائع ہوئے۔

مبشر خان کا بیان مکمل ہونے کے بعد ایف آئی اے کے افسر اعجاز احمد کا بیان قلمبند ہونا شروع ہوا اور انہوں نے بتایا کہ میری سربراہی میں ایف آئی اے پنجاب کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔

اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے اشتہارات کی جاتی امرا اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں تعمیل کرائی، ماڈل ٹاؤن میں نواز شریف کے گھر گئے تو وہاں سیکیورٹی اسٹاف موجود تھا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے اشتہارات سے متعلق سیکیورٹی اسٹاف کو آگاہ کیا گیا اور بلند آواز میں پکارا گیا، اسی روز ٹیم نواز شریف کے جاتی امرا والے گھر بھی پہنچی اور وہی کارروائی دہرائی۔

بیان قلمبند کرواتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے ٹیم نے کارروائی کے دوران تصاویر بھی بنائیں جو ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئی ہیں۔

بعدازاں اعجاز احمد کا بیان مکمل ہونے کے بعد ایف آئی اے کے دوسرے افسر کا بیان ریکارڈ ہوا۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہم شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم جاری کردیں گے، ساتھ ہی انہوں نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سے مکالمہ کیا اور پوچھا کہ ہمیں آگے کیا کرنا چاہیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 2 اپیلیں نواز شریف کی ہیں جبکہ 2 اپیلیں نیب کی نواز شریف کے خلاف ہیں، سزا بڑھانے کی نیب کی اپیل پر نوٹس جاری ہے جبکہ فلیگ شپ پر نوٹس نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اس پر نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ سابق جج ارشد ملک کے خلاف اپیل میں متفرق درخواست دائر ہے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ اپیلوں پر کیا کیا جانا چاہیے۔

جس پر نیب استغاثہ نے نواز شریف کی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس پر اپیلیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔

جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ نواز شریف کی اپیلیں میرٹ پر مسترد کر دی جانی چاہئیں، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج نہیں لیکن آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر عدالتی نظیریں پیش کریں کہ اشتہاری ملزم کی اپیل کا کیا کیا جانا چاہیے۔

اس پر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر نہ کرنے پر نواز شریف کو الگ سے سزا ہو سکتی ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اگر اس میں سزا ہو سکتی ہے تو اپیلوں میں بھی میرٹ پر فیصلہ ہو سکتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے مریم نواز اور کپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں پر بھی سماعت ہے، کیا نواز شریف کی اپیلوں کو بھی انہی اپیلوں کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کر دیں، جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مریم نواز اور کپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں کا میرٹ بالکل مختلف ہے۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایک ہی کیس میں فیصلہ ہے دونوں میں، کیس تو پورا کھلے گا، اس عدالت نے ارشد ملک کا کنڈکٹ بھی تو دیکھنا ہے۔

عدالتی ریمارکس پر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے 5 گواہ پیش کرنے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، دوسری درخواست ناصر بٹ نے دائر کر رکھی ہے وہ بھی اشتہاری ملزم ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ ارشد ملک نے بھی ایک بیان حلفی دی تھی جسے ہم نے انتظامی اختیارات میں ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تھا۔

ساتھ ہی جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو بتائیں کہ پہلے متفرق درخواست کو دیکھنا ہے یا اپیلوں کو، ملزم اگر مفرور ہو بھی گیا تو عدالت نے قانون تو دیکھنا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے العزیزیہ اور ایون فیلڈر ریفرنس میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ کرلیا، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اشتہاری قرار دینے سے متعلق مختصر فیصلہ کچھ دیر میں جاری کریں گے۔

جس کے بعد عدالت نے نواز شریف کی اپیل کی آئندہ سماعت مریم نواز کی اپیل کے ساتھ مقرر کر دی، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل پر آئندہ سماعت 9 دسمبر کو کریں گے۔

ساتھ ہی عدالت نے نواز شریف کی ضمانت دینے والوں کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی طلبی کے اشتہار جاری کرنے کا حکم

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024