امریکا میں کورونا وائرس گزشتہ سال ہی پہنچ چکا تھا، تحقیق
نئے کورونا وائرس کی وبا گزشتہ سال نومبر/دسمبر کو چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوئی تھی اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی۔
مگر حالیہ مہینوں میں ایسی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس دیگر ممالک میں چین میں وبا کی شکل اختیار کرنے سے قبل پھیل رہا تھا۔
کچھ عرصے پہلے اٹلی کی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہاں کم از کم ستمبر 2019 میں ہی کورونا وائرس پہنچ چکا تھا۔
اب امریکا میں ایک تحقیق سامنے آئی ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں بھی یہ وائرس توقعات سے قبل گردش کررہا تھا۔
امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں بتایا کہ 13 دسمبر 2019 میں لیے گئے خون کے نمونوں میں کووڈ 19 وائرس کی اینٹی باڈیز کے شواہد دریافت ہوئے ہیں۔
یہ نمونے 31 دسمبر سے 4 ہفتے قبل لیے گئے تھے، اگر آپ کو یاد نہ ہو تو جان لیں کہ 31 دسمبر وہ تاریخ ہے جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وبا کے پھیلنے کی باضابطہ تصدیق کی گئی تھی۔
نئی تحقیق کے نتائج اس لیے بھی چونکانے والے ہیں کیونکہ امریکا میں کورونا کا پہلا مصدقہ کیس 19 جنوری کو سامنے آیا تھا۔
کسی وائرس کے لیے مخصوص اینٹی باڈیز انسانی مدافعتی نظام میں اس وقت بنتی ہیں جب جسم کو اس وائرس کے حملے کا سامنا ہوا ہو۔
طبی جریدے جرنل کلینیکل انفیکشیز ڈیزیز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ نمونوں میں اینٹی باڈیز کی موجودگی سے عندیہ ملتا ہے کہ امریکا کے مغربی حصوں میں کووڈ 19 کی بیماری توقعات سے پہلے پہنچ چکی تھی۔
گزشتہ مہینے اٹلی کے نیشنل سینٹر انسٹیٹوٹ (آئی این ٹی) کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اٹلی میں یہ نیا کورونا وائرس ستمبر 2019 سے گردش کررہا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس یورپی ملک میں کووڈ 19 توقعات سے پہلے پہنچ چکا تھا۔
بی جریدے ٹیوموری جرنل میں شائع تحقیق میں دریاافت کیا گیا کہ ستمبر 2019 سے مارچ 2020 کے دوران پھیپھڑوں کے کینسر کے حوالے سے ہونے والے ایک ٹرائل میں شامل 959 صحت مند رضاکاروں میں 11.6 فیصد افراد میں فروری سے قبل کورونا وائرس اینٹی باڈیز بن چکی تھیں۔
دوسری جانب فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی 27 دسمبر کو ہسپتال میں زیرعلاج ایک مریض کے نمونے کی جانچ پڑتال میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
اس تحقیق کے نتائج رواں سال جون میں جریدے انٹرنیشنل جرنل آف اینٹی مائیکروبیل ایجنٹس میں شائع ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کا الزام چین پر عائد کیا جاتا ہے جبکہ چین کی جانب سے ہمیشہ اس کی تردید کی جاتی ہے۔
سی ڈی سی کی تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب عالمی ادارہ صحت اور طبی جریدے دی لانسیٹ میڈیکل جرنل کی الگ الگ 2 بین الاقوامی تحقیقی ٹیموں کی جانب سے اس وبا کے ماخذ کو تلاش کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر مائیک ریان کے مطابق اس تلاش کے لیے اس جانور کو تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے چھلانگ لگا کر وہ انسانوں تک پہنچا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطاب اس کی ٹیم ووہان سے اپنی تحقیقات کا آغاز کرے گی اور اس کا مقصد یہ تعین کرنا ہے کہ کس طرح یہ نیا کورونا وائرس جانوروں سے چھلانگ لگا کر انسانوں تک پہنچا۔
دوسری جانب لانسیٹ کی ٹیم جانوروں کی شناخت کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے ابتدائی پھیلاؤ پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
سی ڈی سی کی اس تحقیق کے دوران ماہرین نے 7 ہزار 389 خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی، جو 12 دسمبر 2019 سے 17 جنوری 2020 کے دوران اکٹھے کیے گئے۔
انہوں نے 196 نمونوں میں کووڈ اینٹی باڈیز کو دریافت کیا، جن میں سے 39 نمونے 13 سے 16 دسمبر 2019 کے دوران اکٹھے کیے گئے تھے، جبکہ باقی نمونے 20 دسمبر 2019 سے 17 جنوری 2020 کے عرصے کے تھے۔
محققین نے مزید ٹیسٹوں کے ذریعے تصدیق کی کہ اینٹی باڈیز کے یہ نمونے دیگر کورونا وائرسز کے نہیں، جو عام نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں۔
مجموعی گور پر 93 فیصد میں کووڈ 19 کے لیے مخصوص اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس امریکا میں 19 جنوری 2020 سے قبل موجود تھا، تاہم یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ یہ بیماری اس وقت سفر کرکے واپس آنے والوں میں تھی یا برادری کی سطح پر پھیل رہی تھی۔
اس سے پہلے مارچ میں ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ نوول کورونا وائرس کا ممکنہ پہلا مریض چین میں 17 نومبر کو سامنے آیا تھا۔