کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت چاہتی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے تناظر میں منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے ہوں اور اس کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا۔
وفاقی دارالحکومت میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران وزارت قانون و انصاف کی جانب سے اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ بھارتی ہائی کمیشن کے وکیل بیرسٹر شاہ نواز نون بھی اس موقع پر موجود تھے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے بھارتی ہائی کمیشن کے وکیل سے پوچھا کہ کلبھوشن کیس میں بھارت کا کیا مؤقف ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ نئی دہلی میں کلبھوشن کیس میں وکیل مقرر کرنے کے حوالے سے اجلاس جاری ہے۔
وکیل نے کہا کہ بھارتی ہائی کمیشن کہتا ہے کہ جب ہم تیار تھے اس وقت ہمیں متعلق دستاویزات نہیں دی گئیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت چاہتی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے تناظر میں منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے ہوں۔
مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: 2 وکلا نے عدالت عالیہ کی معاونت سے معذرت کرلی
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کلبھوشن کیس میں منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائیں، کلبھوشن کیس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان، بھارت کو کلبھوشن یادیو تک تیسری قونصلر رسائی دینے کے لیے تیار ہے، پاکستان بار بار تیسری قونصلر رسائی کی پیش کش کر چکا ہے، جس پر ہائی کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس سے متعلق کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے 3 ہفتے کا وقت دیا جائے۔
اس موقع پر ایک بھارتی قیدی محمد اسمٰعیل کی بھارت واپسی کی درخواست کا معاملہ بھی سامنے آیا، جس پر ہائی کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ بھارتی شہری محمد اسمٰعیل کی رہائی چاہتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر سزا مکمل ہو گئی ہے تو پھر قیدی کو رہا ہونا چاہیے، اس پر وکیل نے کہا کہ یہ تو مثبت پیش رفت ہے، تاہم اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ابھی اس معاملے کو مزید دیکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو اس سے متعلق واضح طور پر بتایا جائے گا۔
سماعت کے دوران بھارتی ہائی کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ وہ عدالت کے سامنے کیوں پیش ہونا چاہتے ہیں؟
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ڈپٹی ہائی کمشنر عدالت میں پیش ہو کر وکیل کی خدمات لینے سے متعلق عدالت کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کے وکیل کے بغیر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت پہلے وکیل مقرر کرے، پھر وکیل عدالت کے سامنے پیش ہو کر کسی آفیشل کے پیش ہونے کی استدعا کرسکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے۔
اس پر جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کہا کہ عدالت کو آئندہ سماعت پر بھارت وکیل کی خدمات لینا چاہتا ہے یا نہیں، اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔
بعد ازاں مذکورہ معاملے پر سماعت کو 14 جنوری تک ملتوی کردیا۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ
یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی سفارت کار کلبھوشن کی کوئی بات سنے بغیر چلے گئے، شاہ محمود
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔
بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔
عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔
بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔
جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔
بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی
مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کی ایک اور پیشکش کی جائے، عدالت
قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔
علاوہ ازیں عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد ستمبر 2019 میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔
جس کے بعد جولائی 2020 میں پاکستان نے زیر حراست اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی دی تھی۔