کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس مقابلے کا تنازع حل نہ ہو سکا
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں جمعہ کے روز ہونے والے پولیس مقابلے کے اصل حقائق پیش نہیں کیے جارہے جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ایک عہدیدار خاتون کے ڈرائیور سمیت بین الصوبائی ڈکیت گروہ کے 4 مبینہ کارندے مارے گئے تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی رہنما لیلیٰ پروین اور ان کے شوہر ایڈووکیٹ علی حسنین نے پولیس مقابلے کی صداقت پر سوال اٹھائے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ڈرائیور عباس کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا اور بعدازاں قتل کردیا۔
مذکورہ جوڑا ہفتہ کے روز اسلام آباد سے کراچی واپس آیا اور وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ان کے 'بے گناہ' ڈرائیور کے قتل کا نوٹس لیں۔
یہ بھی پڑھیں:پولیس نے 5 'ڈاکوؤں' کے ساتھ میرے معصوم ڈرائیور کو بھی قتل کیا، پی ٹی آئی رہنما کا دعویٰ
تاہم کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لیلیٰ پروین حقائق بیان نہیں کررہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کال ڈیٹا کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ڈرائیور نے مرکزی ملزم غلام مصطفیٰ کو 17 کالز کیں جبکہ مرکزی ملزم کا فون بھی ان (لیلیٰ پروین) کی ویگو گاڑی سے برآمد ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کارروائی کے تمام پہلوؤں پر کام جاری ہے اور ہم مزید تفصیلات جاری کریں گے۔
شوہر کا سہولت کاری کا کردار زیر غور
ایک سینئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈکیت گروہ کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا جو 2017 سے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں وارداتیں کررہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ گینگ کارندے ڈکیتی کرنے کے لیے گھریلو ملازماؤں سے ان گھروں کی تفصیلات حاصل کرتے جہاں وہ ملازمت کرتیں۔
ضلع جنوبی میں تعینات افسر کا کہنا تھا کہ ڈیفنس میں زیادہ تر گھریلو ملازمائیں جنوبی پنجاب سے 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد ہجرت کر کے آئیں، یہ سرائیکی گروہ 25 سے زائد اراکین پر مشتمل ہے جس میں سے 8 سے 10 کو گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جاچکا ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی میں پولیس مقابلہ، 5 مشتبہ ڈاکو ہلاک
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ڈیفنس میں کم از کم 16 بڑی ڈکیتیاں ہوئی اور پولیس کو اس وقت کچھ 'تکنیکی مدد' ملی جب گینگ کا سرغنہ مصطفیٰ 6 روز قبل ملتان سے کراچی آیا تھا۔
عہدیدار نے انکشاف کیا کہ ڈرائیور عباس نہ صرف گینگ کے سرغنہ سے رابطے میں تھا بلکہ ایک اور ملزم سے بھی اس کا رابطہ تھا اور انہوں نے فون پر 41 مرتبہ بات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ لیلیٰ پروین کے شوہر نے اپنی ویگو گاڑی پر 'اٹارنی ایٹ لا' کی پلیٹ لگا رکھی ہے اس لیے ان کے کردار کو بھی دیکھا جارہا ہے کیوں کہ ملزم مبینہ طور پولیس مقابلے میں مارے جانے سے قبل اس میں سفر کررہا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ علی حسنین متحدہ قومی موومنٹ جنوبی پنجاب کے تنظیمی ڈھانچے کے صدر رہ چکے ہیں۔
افسر کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اس بات کی بھی تحقیقات کررہے کہ کیا علی حسنین ڈکیت گروہ کی سہولت کاری میں ملوث تھے اور اگر ٹھوس شواہد سامنے آئے تو انہیں بھی اس کیس میں نامزد کیا جاسکتا ہے۔