سندھ: تہرے قتل کے کیس میں عدالت کا مفرور ملزم کو فوری گرفتار کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے سندھ کے علاقے میہڑ میں تہرے قتل کیس کے اشتہاری ملزم غلام مرتضیٰ چانڈیو کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیا اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) حیدر آباد سے 4 ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ام رباب کے اہلِ خانہ کے قتل کے خلاف کیس کی سماعت کی، جس میں انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) سندھ ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔
پولیس کی جانب سے ایک مفرور ملزم کی گرفتاری کی رپورٹ پیش کی گئی جبکہ دوسرے مفرور ملزم کی گرفتاری کے لیے عدالت سے مہلت مانگی گئی۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ دو مفرور ملزمان میں سے ایک ذوالفقار چانڈیو گرفتار ہوگیا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سندھ پولیس دو مفروروں کو بھی گرفتار نہیں کر سکتی؟
یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی سربراہی میں مفرور ملزم کی گرفتاری کیلئے آپریشن
آئی جی سندھ نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ ملزم مرتضیٰ چانڈیو کو جلد گرفتار کرلیں گے۔
تاہم درخواست گزار ام رباب نے الزام لگایا کہ سندھ کے موجودہ اراکین صوبائی اسمبلی ملزمان کی مدد کررہے ہیں اور ان کے ساتھ پولیس بھی ملی ہوئی ہے، ملزم کو ڈیل کے تحت پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔
امِ رباب چانڈیو کا مزید کہنا تھا کہ جاگیردار و ڈیریوں کے خلاف ملزمان کی سہولت کاری پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے دونوں اراکین صوبائی اسمبلی ملزم ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، سردار خان چانڈیو اور برہان چانڈیو کو کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
درخواست گزار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ جب بھی ٹرائل کورٹ میں پیش ہوتی ہیں تو سردار رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور جاگیرداروں اور وڈیروں سے جان کا خطرہ ہے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا تہرے قتل کیس میں انصاف کا وعدہ
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ام رباب کو مکمل سیکیورٹی فراہم کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے ام رباب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کچھ ہوا تو آئی جی کو بلائیں گے۔
بعدازاں عدالت نے دوسرے مفرور ملزم مرتضی چانڈیو کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ڈی آئی جی حیدر آباد سے 4 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی اور سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
حکومت سندھ کا مفرور ملزمان کی گرفتاری پر انعام کا اعلان
دوسری جانب حکومت سندھ نے تہرے قتل کیس میں مطلوب اور اشتہاری ملزمان پر انعام مقرر کردیا۔
اس حوالے سے جاری بیان کے مطابق سندھ حکومت نے ذوالفقار چانڈیو ولد غلام قادر چانڈیو پر 10 لاکھ روپے جبکہ دوسرے ملزم مرتضی چانڈیو کی گرفتاری پر 20 لاکھ روپے انعام مقرر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں تہرے قتل کا معاملہ، عدالت کا پولیس کی کارکردگی پر اظہار برہمی
سندھ پولیس نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے ایک ملزم ذوالفقار چانڈیو کو گرفتار کرلیا جبکہ دوسرے ملزم کی گرفتاری عمل میں آنے تک آپریشن جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ ام رباب کے والد مختار چانڈیو، دادا کرم اللہ چانڈیو اور چچا کابل چانڈیو کو 17 جنوری 2018 کو ضلع دادو کے تعلقہ میہڑ میں واقع فرید آباد تھانے کی حدود میں قتل کردیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 17 جنوری 2018 کو میہڑ میں مسلح افراد نے یونین کونسل کے چیئرمین قمراللہ چانڈیو کے گھر پر حملہ کرکے انہیں اور ان کے دو بیٹوں بلدیہ کے اراکین مختیار اور قابل کو قتل کردیا تھا۔
نواب چانڈیو اور ان کے بھائیوں نواب برہان چانڈیو سمیت دیگر پانچ افراد کے خلاف مبینہ طور پر اس واقعے میں ملوث ہونے والے پر مقدمہ درج کرادیا گیا تھا بعد ازاں رکن صوبائی اسمبلی اور ان کے بھائی کا نام ناکافی ثبوت کی بنا پر ایف آئی آر سے خارج کردیا گیا تھا۔
مقتولین کے ورثا کی جانب سے سخت جدوجہد کے بعد پی پی پی سے منسلک مبینہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی گئی تھی جبکہ میہڑ اور دادو پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: میہڑ میں قتل کا معاملہ:ورثا کا پی پی پی رکن اسمبلی کی گرفتاری کا مطالبہ
بعد ازاں 28 مارچ 2018 کو مقتولین اہل خانہ احتجاج کرنے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے پی پی پی رکن صوبائی اسمبلی نواب سردار احمد چانڈیو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
13 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے ضلع دادو میں تہرے قتل کے مقدمے کی تفتیش ختم کرتے ہوئے پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی ملزم برہان چانڈیو سمیت پانچوں ملزمان کو ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا اور ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ پورے مقدمے کا ازسرنو جائزہ لے۔
مذکورہ کیس سکھر کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں زیر التوا تھا، جسے بعد میں انسداد دہشت گردی عدالت میرپور ماتھیلو، گھوٹکی منتقل کردیا گیا تھا۔
بعدازاں جنوری میں حیدر آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں ہونے والے سالانہ عشائیے کی تقریب کے دوران ام رباب نے تہرے قتل کیس کی فائل چیف جسٹس آف پاکستان کو دی تھی۔