بدعنوانی کے مقدمات میں ضمانتیں قانونی اختتام نہیں، چیئرمین نیب
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ کرپشن کیسز میں ضمانتیں قانونی اختتام نہیں ہے۔
اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا چیئرمین نیب نے انسداد بدعنوان ادارے کی 2 سال کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے دوران لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کی سپریم کورٹ سے ضمانت پر بات کرتے ہوئے نیب حکام سے کہا کہ وائٹ کالر کرائم کیسز کو عدالتوں میں بھرپور طریقے سے پیش کریں کیونکہ ’ضمانت کیس کا قانونی اختتام نہیں ہے'۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قریبی سمجھے جانے والے احد چیمہ اور شریک ملزم شاہد شفیق کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل سے متعلق کیس میں ضمانت پر رہا کردیا تھا۔
نیب کے سربراہ نے یہ انکشاف کیا کہ بیورو اپنے تمام علاقائی ہیڈکواٹرز میں 'ریسرچ ایسوسی ایٹس' (قانونی ماہرین) تعینات کرنے جارہا ہے جو عدالتوں میں مقدمات لڑنے میں استغاثہ کی مدد کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں مرکزی ملزم احد چیمہ کی ضمانت منظور
بعدازاں انہوں نے اجلاس میں یہ بتایا کہ نیب نے گزشتہ 2 برسوں کے دوران مختلف احتساب عدالتوں میں 332 کرپشن ریفرنسز دائر کیے، اجلاس کو بتایا گیا کہ بیورو کے دائر کردہ 332 کرپشن ریفرنسز میں سے 270 کی انویسٹی گیشن مکمل کی جاچکی ہیں۔
مزید یہ کہ انسداد بدعنوان ادارے کو گزشتہ 2 برسوں میں 75 ہزار 268 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 66 ہزار 838 درخواستوں کو نمٹا دیا گیا تھا، اسی طرح 2 ہزار 417 شکایتوں پر کارروائی کا آغاز کیا گیا جن میں سے 2 ہزار 36 کو حتمی شکل دی گئی۔
اسی عرصے میں بیورو نے ایک ہزار 240 پر انکوائریز کی منظوری دی جبکہ ایک ہزار 220 پر کارروائی کو مکمل کیا گیا، مزید یہ کہ گزشتہ 2 برسوں کے دوران 432 انویسٹی گیشنز کی بھی منظوری دی گئی جس میں سے 415 کو مکمل کیا گیا۔
جاوید اقبال نے بیورو کی مجموعی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے مقدمات کو قانون کے مطابق ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں لگائیں۔
مزید پڑھیں: نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں شہباز شریف کے خلاف درخواست واپس لے لی
ان کا کہنا تھا کہ 'نیب گزشتہ 2 برسوں میں بدعنوان عناصر سے بلواسطہ یا بلاواسطہ 3 کھرب 63 ارب روپے وصول کرنے میں کامیاب رہا اور وصول کردہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی گئی۔
چیئرمین نیب کا مزید کہنا تھا کہ آگاہی، روک تھام اور نفاذ سے متعلق پالیسی کے حوصلہ افزا نتائج پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور 'نیب ایک مؤثر انسداد بدعنوان ادارے کے طور پر ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کر رہا ہے‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ نیب سرکاری فنڈز کے غلط استعمال، کرپشن، اختیارات کا غلط استعمال، منی لانڈرنگ اور لوگوں کو دھوکا دینے کے بڑے کیسز پر توجہ دے رہا ہے۔
اجلاس کو آگاہ کیا گیا تھا کہ مانیٹرنگ اور تشخیص کے نظام کی وجہ سے نیب کی مجموعی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کی درخواست منظور، ایل ڈی اے سٹی کیس میں احد چیمہ بری
ان کا کہنا تھا کہ نیب افسران کی اجتماعی دانشمندی کو ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کے بعد شکایتوں کی تصدیق، انکوائریز اور انویسٹی گیشن اور کیس کو حتمی مراحل تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جارہا۔
چیئرمین نیب کے مطابق یہ شفاف اور آزادانہ فیصلہ سازی جو کیس کے قانونی پہلوؤں کی روشنی میں ہوں، اس کے لیے نیب کے ایگزیکٹو اور ریجنل بورڈز تشکل دیے گئے ہیں۔
انسداد بدعنوان ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کرپشن کا خاتمہ، لوٹی ہوئی رقم کی واپسی اور لوگوں کی لوٹی ہوئی رقم کو واپس کرنا نیب کی اولین ترجیح ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب کی آگاہی اور روک تھام کی پالیسی کو معروف بین الاقوامی اداروں خصوصاً ورلڈ اکنامک فارم اور ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل پاکستان نے سراہا جو بیورو کے لیے باعث اعزاز تھا۔
علاوہ ازیں جسٹس (ر) جاوید اقبال نے متعلقہ حکام کو قانون کے مطابق شکایت کی تصدیق، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز کرنے کی ہدایت کی تاکہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس حاصل کرکے اور اسے قومی خزانے میں جمع کریا جاسکے۔
یہ خبر 26 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔