قائمہ کمیٹی کی ریلوے اور ایف بی آر کو چمن پورٹ کا مسئلہ حل کرنے کی ہدایت
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے نے وزرات ریلوے اور وفاقی تحقیقاتی بورڈ (ایف بی آر) کے درمیان چمن ڈرائی پورٹ پر درآمد اور برآمد یارڈ کے قیام کے معاملے پر اختلاف کو حل کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کہا ہے کہ وہ 2 ہفتوں میں منصوبے پر عملدرآمد سے متعلق باہمی اتفاق رائے کریں اور اس کی رپورٹ دیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ منصوبے میں ریلوے کی زمین کو استعمال کیا جارہا ہے جبکہ اس پرعمل درآمد ایف بی آر کی جانب سے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کر رہا ہے۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ منصوبے کی تشکیل کے دوران ایف بی آر وزارت کو آن بورڈ لینے میں ناکام رہی اور یہی وجہ ہے کہ منصوبے کو خسارے کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طورخم اور چمن بارڈر پر لینڈ پورٹ بنانے کا اعلان
دوسری جانب ایف بی آر اور این ایل سی نے کمیٹی کے سامنے یہ نکتہ پیش کیا کہ اگر منصوبے کو وقت کی مناسبت سے قابل استعمال نہ بنایا گیا تو ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے فراہم کردہ قرض کی رقم ختم ہوجائے گی، جس کے بعد ایف بی آر کو جرمانہ بھرنا ہوگا لہٰذا وزارت ریلوے سے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) مانگا جارہا ہے۔
ٹیکس باڈی نے تجویز دی کہ ایف بی آر، این ایل سی اور ریلوے کو اس منصوبے کے عملدرآمد کے طریقہ کار اور عطیات دہندگان سے فنڈنگ کے آپشن سے متعلق فیصلے کے بعد ساتھ کام کرنا چاہیے۔
اس موقع پر رکن قومی اسمبلی محمد معین وٹو کی زیر صدارت کمیٹی اجلاس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر این ایل سی کے علاوہ وزارت ریلوے، تجارت اور داخلہ سے معلومات لینے کے لیے 7 دن کے اندر اجلاس بلاسکتا ہے اور 2 ہفتوں میں باہمی طور منظور شدہ فیصلوں کا مسودہ تیار کرے اور منصوبے پر عمدرآمد کے لیے رپورٹ کمیٹی کو پیش کرے۔
مزید پڑھیں: حکومت کا چمن اور طورخم بارڈر پورا ہفتہ کھلا رکھنے کا فیصلہ
کمیٹی نے دیگر متعلقہ وزارتوں کی توثیق کرکے ایف بی آر کو اس معاملے پر جلد از جلد لیٹر جاری کرنے کی ہدایت کی۔
علاوہ ازیں ایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن چمن کو ہدایت کی گئی کہ وہ عدالت کے فیصلے کے تحت ریلوے کے ساتھ تعاون کریں اور تنازع کو جلد از جلد باہمی طور پر حل کیا جائے۔
دوسری جانب کمیٹی نے ریلوے کوئٹہ ڈویژن کی جانب سے صوبائی حکومت کے دیگر مختلف محکموں سے بقایا بلوں یا قابل وصول رقم سے متعلقہ معاملہ بھی دیکھا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ یا تو ریلوے کی زمین خالی کردیں یا پھر ریلوے کو کریہ ادا کرنے کے لیے معاہدے پر دستخط کریں۔
اسی طرح پرائیوٹ آئل کمپنییز کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ ریلوے کی زمین کو استعمال کرنے کا کرایہ دیں یا پھر جلد از جلد زمین کو خالی کریں۔
کمیٹی نے ریلوے ڈویژن کوئٹہ کو بھی ہدایت کی کہ وہ ایک ماہ کے اندر ہرنائی اسٹیشن پر موجود تمام دکانداروں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لائیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے گوادر پورٹ کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے آپریشنل کردیا
کمیٹی نے مزید کہا کہ تمام اشیا اور مال بردار ٹرینوں کے آپریشن کو شروع ہونا چاہیے اور مقامی لوگوں کی سہولت کے لیے مسافر ٹرینوں کو بھی شروع کیا جانا چاہیے۔
دوران اجلاس کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ فنڈز کی دستیابی کو دیکھتے ہوئے ریلوے اسٹیشن پر مرکزی لائن کی تزئین و آرائش کا کام کیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ریلوے مسافر ٹرینوں کی نجکاری پہلے ہی شروع کرچکی ہے اور اس معاملے پر کمیٹی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ وزارت ریلوے کو مقررہ وقت میں ٹھیکیداروں سے ہونے والی وصولیوں کو غور سے دیکھنا چاہیے۔
یہ خبر 25 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔