پائلٹ لائسنس کا معاملہ: وزیر ہوا بازی اپنے بیان پر قائم
راولپنڈی: وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا کہنا ہے کہ وہ مشکوک لائسنس والے پائلٹس کے بارے میں قومی اسمبلی میں دیے گئے اپنے سابقہ بیان پر قائم ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) اور ہاشو گروپ کے درمیان سیاحت کو فروغ دینے کے لیے باہمی تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرانزک تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کے 860 ایکٹو پائلٹس میں سے 262 کے پاس مشکوک لائسنس تھا یا انہوں نے امتحانات میں دھوکا دیا تھا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'تمام 262 پائلٹس کو ذاتی سماعت کا حق دیا گیا تھا اور صرف 82 پائلٹس کے خلاف کارروائی کی گئی تھی، کچھ بھی غلط طریقے سے نہیں کیا گیا'۔
مزید پڑھیں: ’پارلیمنٹ میں 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا، آج کہہ رہے ہیں صرف 82 ہیں‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے لائسنس برانچ کے عہدیداروں کا جرم ثابت ہونے پر ان کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کیا گیا اور ان کے کیسز کو تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیجا گیا ہے۔
سی اے اے میں تین روز کے اندر اندر ڈائریکٹر جنرل کے تقرر کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کے بارے میں وفاقی وزیر نے کہا کہ اس عہدے کے لیے 600 درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں سے 73 قابلیت رکھتی تھیں اور ان میں سے 18 کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا تاہم ان میں سے کوئی بھی اس عہدے کے لیے اہل نہیں ہوسکتا کیونکہ انہیں متعلقہ تجربہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس عہدے کے لیے جلد ہی دوبارہ ایک اشتہار شائع کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ حکومت قانون کے مطابق ڈی جی سی اے اے کے تقرر کا عمل قانون کے مطابق جاری رکھے ہوئے ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا تھا کہ کابینہ نے پی آئی اے کی تشکیل نو کے لیے منظوری دے دی ہے جس میں اضافی عملہ کام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی جی سی اے اے کا عہدہ خالی رکھنے پر سیکریٹری ایوی ایشن عدالت طلب
انہوں نے کہا کہ 'ایئر لائن کی تنظیم نو کے ایک حصے کے طور پر عملے کے 7 ہزار لوگوں کو برطرف کرنا پڑے گا تاہم ان کا انتخاب کیا جائے گا'۔
اس سے قبل پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ارشد ملک نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایوی ایشن کی صنعت میں موجودہ بحران کے باوجود ہاشو گروپ نے ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے پی آئی اے کو مدد فراہم کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں مشکلات سے باہر آنا ہوگا، ہم سخت محنت کر رہے ہیں، ہم گوادر پر کام کر رہے ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے، اس کے علاوہ ہم دیگر ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں'۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی تعیناتی کیس میں ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا اور آج کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اس عدالت نے ہمیشہ ایگزیکٹو کے کام کو ان پر چھوڑا ہے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے، یہاں معاملہ قومی ایئرلائن کی ساکھ اور قومی وقار کا ہے، سیکریٹری بورڈ کا چیئرمین ہے اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں کہ چیئرمین کو ڈی جی کا چارج دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ سول ایوی ایشن ایک اہم ترین ریگولیٹری اتھارٹی ہے، یہ بتائیں کہ کتنے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان پارلیمنٹ کے فلور پر دیا گیا، کس نے ان 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بتایا، کیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ان جعلی لائسنسز کے بارے میں بتایا؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا اور آج کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 ہیں، اس معاملے پر انتہائی غفلت برتی گئی اور جعلی لائسنسز کا بیان دیا گیا۔
واضح رہے کہ سی اے اے کو قائم مقام ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے چلائے جانے کے خلاف ڈی جی سی اے اے کے عہدے کے لیے ایک اُمیدوار عمران اسلم نے درخواست دائر کی تھی، عمران اسلم ڈی جی آفس کے لیے شارٹ لسٹ ہونے والے اُمیدواروں میں شامل تھے، ان کا انٹرویو لیا جاچکا تھا لیکن اتھارٹی نے اس عمل کو روک دیا اور نئے سرے سے دوبارہ یہ عمل شروع کردیا۔
خیال رہے کہ 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔
جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔
وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔
جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں مختلف بین الاقوامی ایئرلائنز کی جانب سے بھی پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کے واقعات دیکھنے میں آئے تھے۔