صنعتوں نے گیس کی قیمت میں اضافے کی درخواست مسترد کردی
اسلام آباد: تجارتی اور صنعتی نمائندوں سمیت بڑے اسٹیک ہولڈرز نے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کی جانب سے رواں سال میں مالی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے مطالبے کی مخالفت کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے بجائے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے ایس ایس جی سی ایل کے ریونیو فرق کو کم کرنے اور گیس فراہمی کی لاگت میں کمی کے لیے گیس کی پیداواری قیمتوں میں کٹوتی کا کیس تیار کیا ہے جس کی خود ایس ایس جی سی ایل نے بھی حمایت کی۔
دیگر اسٹیک ہولڈرز، جن میں کار مینوفیکچررز، سیرامکس ایسوسی ایشن اور کراچی کے ایوان صنعت و تجارت نے ایس ایس جی سی ایل کی جانب سے گیس ٹیرف میں 78 روپے 95 پیسے فی یونٹ اضافے کے مطالبے کی مخالفت کی۔
یہ بھی پڑھیں: گیس کمپنیوں کی قیمت میں اضافے سے متعلق درخواستیں مسترد
یہ معلومات آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی ایس ایس جی سی ایل کی جانب سے قیمتوں میں 78 روپے 95 پیسے فی برٹش تھرمل یونٹ اضافے کی درخواست پر ہونے والی عوامی سماعت کا لبِ لباب تھی، سماعت اوگرا کے نائب چیئرمین نورالحق کی صدارت میں ہوئی۔
اپٹما سندھ اور بلوچستان کی جانب سے بات کرتے ہوئے رضی الدین رضی نے مطالبہ کیا کہ پیٹرولیم پالیسی کی دفعہ 5 کے تحت گیس کی پیداواری قیمت کو موجودہ 4.08 ڈالر سے کم کیا جانا چاہیے، جس سے نہ صرف گیس کی قیمتوں میں کمی آئے گی بلکہ ایس ایس جی سی ایل کی آمدن کا فرق بھی دور ہوگا۔
ایس ایس جی سی ایل نے اپنی آمدن کے تخمینے پر نظر ثانی کی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ اسے 28 ارب 24 کروڑ روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے جس کے لیے قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔
رضی الدین رضی نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی گیس کی پیداواری قیمت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے بلند ہے۔
مزید پڑھیں: ایس این جی پی ایل کو گیس صارفین سے 115 ارب روپے وصول کرنے کی اجازت
تیل کے 40 ڈالر فی بیرل کے بینچ مارک پر پاکستان میں گیس کی پیداواری قیمت 4.08 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے لگ بھگ ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں گیس کی پیداواری قیمت ڈیڑھ سے ڈھائی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے درمیان ہے۔
اپٹما کے نمائندے نے بھی ایس ایس جی سی ایل کی پٹیشن میں گیس ڈیولپمنٹ سرچارج (جی ڈی ایس) کے دعوے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ منفی جی ڈی ایس کا کوئی تصور نہیں اس لیے اسے آمدن کی ضروریات میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب ایس ایس جی سی ایل کے نمائندوں نے بھی اَن اکاؤنٹ فار گیس (یو ایف جی) کو ایک لعنت قرار دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ کمپنی نقصانات کو کم کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے کام کررہی ہے۔