کیا ترقی پذیر ممالک کے لیے کورونا ویکسین کا حصول ممکن ہے؟
اس بدقسمت سال کے اختتام پر بالآخر ہمیں ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔ اسٹرا زینیکا (AstraZeneca)، بائیو این ٹیک (BioNTech-Pfizer) اور موڈیرنا (Moderna) جیسی بڑی دوا ساز کمپنیوں نے اپنی تیار کردہ کورونا ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج بیان کیے ہیں۔
ان نتائج سے اشارہ ملتا ہے کہ اگلے سال جنوری تک کورونا کی ویکسین دستیاب ہوسکتی ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اعلان کیا ہے کہ حکومت نے کورونا کی ویکسین خریدنے کے لیے 100 ملین ڈالر کی رقم مختص کی ہے۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین کے حصول میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں۔
کورونا وائرس نے ترقی پذیر دنیا میں انسانی صحت اور معیشت کے لیے ایک بحرانی صورتحال پیدا کردی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوبی ایشیا میں ہی 5 کروڑ افراد اس وبا کے باعث غربت کا شکار ہوجائیں گے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ترقی پذیر ممالک کو امیر ممالک کی نسبت کورونا کی ویکسین زیادہ جلدی درکار ہے۔
مزید پڑھیے: وہ ملک جہاں 10 لاکھ افراد کو تجرباتی کورونا ویکسین استعمال کرائی گئی
ترقی پذیر مالک کے حکمرانوں کے لیے کورونا کی ویکسین خریدنا ایک چیلنج ہوگا۔ ویکسین خریدنے کے لیے صرف پیسوں کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ویکسین دستیاب ہی نہیں ہوگی، کیونکہ امیر ممالک اور خاص طور پر امریکا نے ویکسین کے پیشگی آرڈر دے رکھے ہیں۔
آکسفام کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی اکثریت 2022ء کے آخر تک ہی ویکسین حاصل کرسکے گی، اور تب تک ان ممالک کو کورونا کی ایک کے بعد ایک لہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ اس ویکسین کی ضرورت اور مفت دستیابی کے لیے مل کر آواز بلند کریں۔
کورونا ویکسین کی منصفانہ تقسیم کو پہلے ہی ایک مسئلے کے طور پر سمجھ لیا گیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کی کورونا ویکسین گلوبل ایکسس فیسیلیٹی (COVAX) کا قیام اسی وجہ سے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ آبادی کے حساب سے ویکسین تقسیم کی جائے اور ترقی پذیر ممالک کو بھی ویکسین کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔
بدقسمتی سے امریکا اس معاہدے میں شامل نہیں ہوا۔ امریکا کی آبادی 32 کروڑ سے کچھ زائد ہےاور اس نے پہلے ہی 10 کروڑ ویکسین کا آرڈر دے دیا ہے اور مزید 50 کروڑ ویکسین خریدنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ حتٰی کہ جو امیر ممالک COVAX کا حصہ ہیں، ان پر بھی کوئی پابندی نہیں اور وہ بھی دوا ساز کمپنیوں سے ویکسین کی آزادانہ خریداری کرسکتے ہیں۔
کچھ ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ مفت ویکسین کی فراہمی ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس (IPR) کے خلاف ہے۔ IPR جیسے قوانین نئی ٹیکنالوجی پر تحقیق کے لیے ضروری مراعات اور تحرک فراہم کرتے ہیں اور مضبوط IPR قوانین مارکیٹ کی بنیاد ہوتے ہیں۔
ماہرین نے کچھ چیزوں کو عوامی اشیا کے طور پر بھی تسلیم کیا ہوا ہے۔ ان میں وہ چیزیں شامل ہیں جن سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کو صاف ہوا اور پارکوں جیسی عوامی ضرورت کی چیزوں سے دُور نہیں رکھا جاتا۔ اسی وجہ سے یہ عوامی اشیا ریاست کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں کیونکہ مارکیٹ میں اکثر ان کی قلت ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: کیا محققین نے کورونا ویکسین کا سستا متبادل دریافت کرلیا؟
کون سی ویکسین عوامی اشیا میں شامل ہوگی اس کا انحصار کئی سیاسی اور سماجی فیصلوں پر ہوتا ہے۔ جان بچانے والی ویکسین کو عموماً پیٹینٹ نہیں کروایا جاتا ہے۔ جوناس سالک کی پولیو ویکسین کو کبھی پیٹینٹ نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ 110 ممالک فلو کی ویکسین تیار کرتے ہیں جس کے اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔
ترقی پذیر مالک کو کورونا ویکسین کی بروقت فراہمی کے حوالے سے فوری پالیسی سازی کی ضروت ہے۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت میں ترقی پذیر ممالک اس ویکسین کو عوامی اشیا میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں اور امیر مالک پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ ویکسین کا فارمولا ترقی پذیر ممالک میں قائم دوا ساز کمپنیوں کو فراہم کریں۔ یہاں تیار ہونے والی ویکسین ان لوگوں کو مفت بھی دی جاسکتی ہے جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ طریقہ دنیا کو جان بچانے والی ادویات پر لاگو غیر منصفانہ پیٹینٹ سے بھی آزادی دلا دے گا۔
اس دوران پاکستان میں پالیسی ساز افراد کو ویکسین کی تقسیم کے طریقے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ پولیو ویکسین پر آنے والے منفی ردِعمل کو مدِنظر رکھتے ہوئے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس ویکسین سے آگاہی کے حوالے اشتہار چلوانے ہوں گے تاکہ عوام میں اس کی قبولیت میں اضافہ ہو۔
مزید پڑھیے: دنیا کی پہلی کورونا ویکسین آخرکار تیار ہوگئی
جن لوگوں کو اس بیمای سے سب سے زیادہ خطرہ ہے، ان کی شناخت اور ان تک سب سے پہلے ویکسین پہنچانا بھی ضروری ہے۔ ویکسین لگانے کے لیے عملے کی تربیت اور ویکسین کو مخصوص درجہ حرارت پر محفوظ رکھنے کے لیے بھی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور اس کا اختتام بھی نظر نہیں آرہا۔ دوسری طرف امیر ممالک نے مستقبل میں آنے والی ویکسین کے پیشگی آرڈر دے کر اس کی دستیابی پہلے ہی محدود کردی ہے۔
دوا ساز کمپنیوں کو بھی پیٹینٹ کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے کیونکہ یہ ویکسین بلاشبہ عوامی ضرورت کی چیز ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک مل کر اس ویکسین کو عوامی ضرورت کی اشیا میں شامل کرنے پر زور دیں تاکہ مزید زندگیاں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔
یہ مضمون 22 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔