'وبا کے باوجود این آئی سی وی ڈی میں سرجریز جاری رکھنا سیاسی فیصلہ ہے‘
کراچی: قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) میں خدمات انجام دینے والے ایک سینئر ڈاکٹر جنہیں حال ہی میں تبدیل کردیا گیا تھا، نے دعوٰی کیا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ نے کورونا وائرس کے دوران جاری تمام گائیڈ لائنز کو صرف 'سیاسی' وجوہات کی بنا پر نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال ہسپتال کے آپریشن کیے جانے والے مریضوں میں اموات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے جو 3 سال قبل 26 فیصد تھی اور ہنر مند پیشہ ور افراد اور ایک قابل ٹیم کو شامل کرنے کے تین ماہ کے اندر اندر کم ہوکر 15 فیصد تک رہ گئی تھی۔
یہ دعویٰ این آئی سی وی ڈی میڈیکل فیکلٹی اور انتظامیہ کے ایک سینئر ممبر کی طرف سے سامنے آیا ہے جو رواں ہفتے کے آغاز میں صحت سہولت کے عملے اور صحت کے کارکنوں میں کورونا وائرس کے کیسز پر سرجریز معطل کرنے کے بعد تبدیل کردیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: کورونا کیسز میں اضافے پر آپریشنز روکنے والے این آئی سی وی ڈی کے شعبہ سرجری کے سربراہ برطرف
تاہم این آئی سی وی ڈی انتظامیہ نے یہ دعوی کیا ہے کہ کارڈیک سرجری ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد انہیں ہٹا گیا تھا جس پر ڈاکٹر پرویز چوہدری نے فوری ردعمل ظاہر کیا اور جمعرات کے روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'جھوٹ اور سازش کو بے نقاب کرنا ہوگا جو صحت کے اہم ادارے کو برباد کر رہا ہے، این آئی سی وی ڈی کی اعلٰی انتظامیہ بہانے بنارہی ہے اور اس نے بہت سی جانوں اور ادارے کی ساکھ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
این آئی سی وی ڈی انتظامیہ نے کہا کہ ڈاکٹر پرویز چوہدری کے دعوے 'غلط ارادوں' سے تھے۔
ڈی این آر فیصلہ
ڈاکٹر پرویز چوہدری نے کہا کہ 'جب میں نے 2017 میں این آئی سی وی ڈی میں شعبہ سرجری کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تھا تو آپریشن کیے گئے مریضوں میں اموات کی شرح 26 فیصد تھی اور اس کی اہم وجہ کارڈیک سرجنز کی جانب سے این آئی سی وی ڈی اسٹاف کے لیے ڈی این آر (مریض کو بے ہوشی میں علاج نہ کرنے) کی ہدایات تھیں تاکہ دیگر سرجری کے مریضوں کے لیے بستر خالی کیے جاسکیں اور سرجنز سرجریز میں کامیابی اور ناکامی کے بجائے پیسے کماسکیں'۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ صحت کی سہولت کے ایک اہم حصے کی سربراہی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کے ڈی این آر کی ہدایات آپریشن کے مریضوں کے اہلخانہ یا اخلاقیاتی کمیٹی کے جانب سے ہی آنے چاہیے کی ہدایات کے بعد تین مہینوں میں اموات کی شرح 15 فیصد تک کم ہو گئی۔
ڈاکٹر پرویز چوہدری نے کہا کہ 'میں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ جن سرجنز کے مریض آپریٹنگ ٹیبل پر ہی دم توڑ رہے ہوں ان سرجنز کو ادائیگی نہیں کی جائے گی'۔
ڈاکٹر پرویز چوہدری نے این آئی سی وی ڈی کے تمام مراکز میں سرجری معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ متعدد سرجنز، نرسز، ٹیکنیشن اور پیرا میڈیکس کے کووڈ 19 کے ٹیسٹ مثبت آئے تھے جس کے بعد این آئی سی وی ڈی انتظامیہ نے حال ہی میں انہیں ہٹانے کے بعد ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اسد بلال اعوان کو کارڈیک سرجری ڈپارٹمنٹ کا قائم مقام سربراہ مقرر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: این آئی سی وی ڈی کی کورونا کیسز پر سرجریز روکنے والے ڈاکٹر کو ہٹانے کی تردید
انہوں نے کہا کہ انہیں این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر نے سرجری ڈپارٹمنٹ کی بحالی کے لیے پاکستان بلایا تھا جہاں تمام 17 سرجنز کے پاس 'ان کے اپنے پروٹوکول' موجود تھے اور وہ سب 'لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے تھے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ میرا فیصلہ تھا جو سرکاری حکم بن گیا کہ اگر آپریٹنگ ٹیبل پر یا سرجری کے فوراً بعد مریض کا انتقال ہوجاتا ہے تو کسی بھی سرجن کو کوئی فیس ادا نہیں کی جائے گی، اس سے اموات کی شرح کم ہوگئی کیونکہ انہوں نے دانشمندی سے مریضوں کا انتخاب شروع کردیا، اس کی قیادت کرتے ہوئے میں نے سنجیدہ مریضوں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں امریکی تربیت یافتہ سرجن تھا اور اس طرح کے مریضوں سے نمٹنے کا تجربہ رکھتا ہوں'۔
الزامات مسترد
دریں اثنا ، این آئی سی وی ڈی کے ترجمان نے ڈاکٹر پرویز چوہدری کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ 'ملک کی سب سے کامیاب صحت کی سہولیات کی شہرت کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔
ایک بیان میں ترجمان نے مزید کہا کہ ڈاکٹر پرویز چوہدری کی سرجری یونٹ کے سربراہ کی حیثیت سے شمولیت سے قبل این آئی سی وی ڈی عمدہ کارکردگی دکھا رہا تھا اور اب بھی اس میں ملک کے بہترین صحت کے پیشہ ور افراد خدمات انجام دے رہے ہیں۔