• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

پبلک اکاونٹس کمیٹی میں 21 ہزار آڈٹ پیراز زیر التوا

شائع November 20, 2020
اجلاس میں بتایا کہ 2018 تک 18 ہزار 500 آڈٹ پیراز زیر التوا تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
اجلاس میں بتایا کہ 2018 تک 18 ہزار 500 آڈٹ پیراز زیر التوا تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پبلک اکاونٹس کمیٹی (پی اے سی) کو آگاہ کیا گیا ہے کہ کمیٹی میں زیرالتوا آڈٹ پیراز کی تعداد 21 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) جاوید جہانگیر نے پی اے سی اجلاس میں بتایا کہ 2018 تک 18 ہزار 500 آڈٹ پیراز زیر التوا تھے لیکن بعد میں ان جمع شدہ آڈٹ پیراز میں مزید 2 ہزار سے لے کر 2 ہزار 200 تک نئے آڈٹ پیراز شامل ہوگئے۔

چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے نشاندہی کی کہ بھارت پاکستان سے کہیں بڑا ملک ہے لیکن ان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں صرف 100 آڈٹ پیراز زیر التوا ہیں۔

رانا تنویر حسین کے مطابق 2011 سے 2012 کے آڈٹ پیراز اب بھی زیر التوا ہیں اور جب ایکشن لیا گیا تو معلوم ہوا کہ جن عہدیداروں نے غلطیاں کی تھیں وہ یا تو ریٹائرڈ ہوچکے ہیں یا پھر ان کا انتقال ہوچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا

مزید یہ کہ رانا تنویر حسین نے یہ معاملہ وزارتوں اور ڈویژن کے سامنے اٹھایا جو کہ آڈیٹرز کے مطابق آڈٹ پیراز کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

انہوں نے برائے تخفیف غربت اور سماجی تحفظ ڈویژن، معاشی امور ڈویژن، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، وزارت انسداد منشیات، منصوبہ بندی اور انسانی حقوق کے متعلقہ سیکریٹریز اور عہدیداروں کو محکمہ جاتی اکاونٹس کمیٹیز (ڈی اے سیز) کے اجلاس باقاعدگی سے نہ کرنے پر خبردار کیا۔

پی اے سی کے رکن روحیل اصغر نے چیئرمین سے ان افراد کو اپنے دفتر میں بلانے کے لیے کہا تو رانا تنویر حسین نے کہا کہ وہ پہلے ہی پر نسپل اکاونٹنگ افسران کو طلب کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع

ثنااللہ مستی خیل نے چیئرمین کی س بات سے اتفاق کیا کہ سب کچھ کمیٹی کے سامنے ہونا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ صرف اس لیے ضائع ہورہا ہے کیونکہ ڈی اے سیز نے اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے تمام معاملات پی اے سی پر چھوڑ دیے تھے۔

دوسری جانب شاہدہ اختر نے حکام کو یاد دہانی کرائی کہ بہت عرصے پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ ڈی اے سیز باقاعدگی سے اپنے فرائض انجام دیں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ڈی اے سیز کی سطح پر زیادہ سے زیادہ معاملات نمٹائے جانے کی ضرورت ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قومی اسمبلی نے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے عہدیداروں کےخلاف فیصلہ کیا تھا کہ ان کو ترقی نہیں دی جائے گی اور ان کی سالانہ خفیہ رپورٹ میں منفی ریمارکس دیے جائیں گے۔


یہ خبر 20 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024