آڈیٹر جنرل کی پی آئی اے کے سی ای او کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے قومی ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایئر مارشل ارشد ملک کو فوری عہدے سے ہٹانے کی سفارش کردی۔
حکومتی آڈٹ پیرا 2019 میں سی ای او ارشد ملک سے وصول کیے گئے اضافی الاؤنسز واپس لینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: ایئر مارشل ارشد ملک کا بطور سی ای او پی آئی اے بحالی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
علاوہ ازیں آڈٹ پیرا میں پی آئی اے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے خلاف بھی کارروائی پر زور دیا گیا۔
آڈٹ پیرا کے مطابق ایئر مارشل ارشد ملک ایک ہی وقت میں ایئرفورس اور پی آئی اے سے الاؤنسز وصول کرتے رہے ہیں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے مطابق سروسز رولز کے تحت ارشد ملک ایئرفورس کی ملازمت کے دوران بطور چیف ایگزیکٹو پی آئی اے اضافی مراعات وصول نہیں کرسکتے تھے۔
حکومتی آڈٹ پیرا 2019 میں کہا گیا ہے کہ میں سی ای او ارشد ملک نے الاؤنسز کی مد میں پی آئی اے سے تقریباً 30 لاکھ روپے غیر قانونی طور پر وصول کیے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے میں ایئرفورس سے آئے دیگر افسران نے بھی تقریباً 7 کروڑ 18 لاکھ روپے غیر قانونی الاؤنسز وصول کیے۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد ملک کی تعیناتی غیر قانونی ہے،فوری برطرف کیا جائے،آڈیٹر جنرل کی رپورٹ
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پی آئی اے میں ڈیپوٹیشن پر ارشد ملک کے علاوہ 5 ایئر کموڈور، 2 ونگ کمانڈر اور ایک فلائٹ لیفٹینینٹ پی آئی اے میں اضافی الاؤنسز وصول کرتے رہے۔
آڈٹ پیرا میں کہا گیا کہ حکومتی رولز کے مطابق ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران صرف رہائش، بجلی کے بل اور فرنیچر کی مد میں سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔
اس میں انکشاف کیا گیا کہ تمام افسران پی آئی اے سے ہاؤس رینٹ لینے کے ساتھ پی اے ایف کی رہائش گاہ بھی استعمال کر رہے ہیں۔
آڈٹ پیرا میں کہا گیا کہ ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی کے وقت مطلوبہ معیار کو بھی نظر انداز کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق تعیناتی کے وقت اخبار میں دیے جانے والے اشتہار میں مطلوبہ تعلیم میں بھی ارشد ملک کے لیے خصوصی رعایت پیدا کی گئی اور مطلوبہ تعلیمی معیار سے ہٹ کر وار کورس اور ملٹری آپریشن جیسے مضامین شامل کیے گئے۔
مزید پڑھیں: بہتر ہے پی آئی اے کو پاکستان ایئرفورس کے حوالے کردیں، چیف جسٹس
واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی، تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایویشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔
اس ضمن میں مزید کہا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی میں پبلک سیکٹر کمپنیز رولز 2013 اور رول 2 اے کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا جس کے تحت سی ای او تعینات کیے جاتے ہیں۔
تاہم یہاں یہ بات مدنظر رہے 21 جنوری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی قانون کے مطابق قرار دی تھی۔