• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

پی ڈی ایم کا پارلیمنٹ میں اپنی انتخابی اصلاحات پیش کیے جانے کا امکان

شائع November 19, 2020
انتخابی اصلاحات پارلیمان میں پیش کی جاسکتی ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی
انتخابی اصلاحات پارلیمان میں پیش کی جاسکتی ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرنے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اب پارلیمان میں قانون سازی کی شکل میں اپنی خود کی اصلاحات پیش کرنے کے آپشن پر غور کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ 'چونکہ ہم موجودہ ناجائز حکومت کے تحت تمام سرگرمیوں کا مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کرچکے ہیں، لہٰذا ان سے انتخابی اصلاحات سمیت کسی بھی معاملے پر بات چیت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے'۔

احسن اقبال نے ڈان سے خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی اصلاحات ان بنیادی اصولوں کا حصہ تھیں جس پر پی ڈی ایم میں شامل کی گئیں 11 آئینی جماعتوں نے چارٹر آف پاکستان (سی او پی) کی تیاری کے لیے اتفاق کیا تھا۔

مزید پڑھیں: تمام اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مقصد کے لیے کسی بھی قانون سازی کی ضرورت پڑے گی تو اپوزیشن جماعتیں اسے خود پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں گی۔

احسن اقبال جو نئے چارٹر کے مسودے کی تیاری کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کے رکن بھی ہیں، انہوں نے انکشاف کیا کہ پی ڈی ایم رہنماؤں نے 13 دسمبر کو لاہور میں ہونے والے اپنے آخری جلسے میں چارٹر آف پاکستان پر عوام کے سامنے دستخط کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن جس طرح پارلیمنٹ میں حکمران جماعت کی حمایت کے بغیر مجوزہ قانون سازی کرے گی تو انہوں نے واضح کیا کہ پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ کسی بھی رابطے اور بات چیت سے متعلق بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے جبکہ ان کے اراکین، پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیوں کی کارروائیوں میں حصہ لے رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا رویہ جمہوری نہیں آمرانہ ہے، شبلی فراز

دوسری جانب سینیٹ میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن نے اپنے ایک بیان میں وزیراعظم کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت 'پہلے گلگت بلتستان میں انتخابات میں دھاندلی کے لیے اپنی ذمہ داری قبول کرے اور پھر اصلاحات کی بات کرے'۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'انہوں (حکومت) نے ان تمام برسوں میں اس سے متعلق کچھ بھی نہیں کیا ہے اور (اب) اچانک سے انتخابی اصلاحات میں دلچسپی انتہائی مشکوک لگ رہی ہے'۔

رہنما پیپلزپارٹی شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پہلے پارلیمانی کمیٹی جامع اصلاحات کے لیے بنائی گئی تھی لیکن بجائے اس کے اب حکومت انتخابی اصلاحات سے متعلق بات کررہی ہے۔

انہوں نے کہا 'یہ صرف وفاقی حکومت کے غیرسنجیدہ رویے کو ظاہر کررہا ہے، جب کشمیر یا گلگت بلتستان کی بات آتی ہے تو وزیراعظم اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیتے لیکن اب وہ اصلاحات کی منظوری کے لیے اپوزیشن سے بات کرنا چاہتے ہیں'۔


یہ خبر 19 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شا ئع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024