وکیل کے قرنطینہ میں جانے کے سبب جسٹس عیسیٰ کیس کی سماعت ملتوی
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت پیر کے روز ملتوی کردی کیوں کہ درخواست گزار جج کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے اپنے ساتھی کا کووڈ-19 کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد خود کو قرنطینہ کر لیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی سپریم کورٹ بینچ نے مشاہدہ کیا کہ عدالت وکیل منیر اے ملک کی صحتیابی کا انتظار کرے گی جنہوں نے کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ
وکیل نے عدالت کے روبرو استدعا کی تھی کہ انہیں ہفتہ کے روز خود کو قرنطینہ میں رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا کیونکہ ان کے کنبے کے ایک رکن کے ساتھ ساتھ ایک معاون وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد کا بھی کووڈ-19 کا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہے۔
منیر اے ملک نے عدالت سے چار ہفتوں تک سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی، تاہم عدالت نے کیس کی سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کردی۔
28 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے سماعت میں التوا کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے 16 نومبر تک ملتوی کردیا تھا۔
عدالت جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کے 19جون کے مختصر حکم کے خلاف دائر درخواست کے ساتھ ساتھ 23 اکتوبر کے تفصیلی فیصلے سمیت اس سلسلے میں مختلف درخواستوں کی سماعت کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سرینا عیسیٰ، نظرثانی درخواست سے تین ججوں کے اخراج کی مخالف
پہلے ہی نظرثانی کے خلاف دائر کی گئی ترمیمی درخواستوں کو متعدد درخواست گزاروں نے دائر کیا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اپنی درخواست کے بارے میں بینچ کو یاد دہانی کرائی جس میں انہوں نے فل کورٹ میں ان تمام ججوں کی شمولیت کی درخواست کی تھی جنہوں نے قبل ازیں صدارتی ریفرنس کے خلاف ان کے شوہر کی درخواست پر 19 جون کا مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔
لیکن عدالت نے بعد میں ان کی درخواست کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا اور مختلف درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو اضافی دلائل پیش کریں۔
وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا
اپنی درخواست میں سرینا عیسیٰ نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ چیف جسٹس گلزار احمد اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو ان کی نظرثانی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ سے خارج نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ میں اور میرے بچے کسی بھی معاملے میں (صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے خلاف دائر آئینی درخواستوں) میں فریق نہیں ہیں، اس کے باوجود فیصلوں میں 194بار ہمارا ذکر کیا جا چکا ہے جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے (81 مرتبہ)، جسٹس مقبول باقر نے (39 بار)، جسٹس فیصل عرب نے (7 بار)، جسٹس سید منصور علی شاہ نے (54 بار) اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے (13 بار) ذکر کیا۔