ترک پارلیمنٹ میں آذربائیجان میں فوج کی تعیناتی کیلئے بل پیش
ترک حکومت نے آذربائیجان میں آرمینیا سے متنازع علاقے نیگورنو-کاراباخ میں معاہدے کے بعد قائم ہونے والے امن کی نگرانی کے لیے اپنی فوج کی تعیناتی کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سرکاری خبر ایجنسی کا کہنا تھا کہ حکومت نے فوجی تعینات کرنے کا معاملہ منظوری کے لیے پارلیمنٹ بھیج دیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے روس کی سربراہی میں آذربائیجان اور آرمینیا کی حکومتوں نے جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت نیگورنو-کاراباخ میں روس اور ترک افواج نگرانی کریں گی جبکہ آرمینیائی افراد متنازع خطہ چھوڑ دیں گے۔
مزید پڑھیں: آرمینیا، آذربائیجان اور روس نے نیگورنو۔کاراباخ میں لڑائی کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کردیے
روس اور ترک وزرائے دفاع نے ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے اور اس میں طے پایا تھا کہ آذربائیجان میں مشترکہ طور پر نگرانی کے لیے ایک سینٹر قائم کیا جائے گا۔
ترک حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا تھا جس میں درخواست کی گئی ہے کہ ترک امن فوج کو ایک سال کے لیے بھیجنے کی منظوری دی جائے اور فوجیوں کی تعداد صدر رجب طیب اردوان طے کریں گے۔
پارلیمنٹ میں اس بل پر آنے والے دنوں میں بحث ہوگی اور کہا جارہا ہے کہ فوج کے ساتھ ساتھ سول انتظامی عہدیدار بھی امن مشن کا حصہ ہوں گے۔
اناطولو خبر ایجنسی نے بل کے متن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ‘ترک مسلح افواج کے اہلکاروں کو روس اور ترکی کے جوائنٹ سینٹر کے قیام میں حصہ لینا ہوگا جو خطے کے عوام کے لیے امن اور فلاح میں معاون ہوگا اور یہ قدم قومی مفاد کے تحت ضروری ہے’۔
ادھر روس کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ آذربائیجان کی سرزمین میں نگرانی کے عمل میں ترک اہلکاروں کا اثر و رسوخ بہت محدود ہوگا اور وہ نیگورنو-کاراباخ نہیں جائیں گے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ سینٹر کو ممکنہ خلاف ورزیوں کی نگرانی لیے ڈرون اور دیگر تیکنیکی حوالے سے استعمال کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: نیگورنو-کاراباخ جنگ بندی: آرمینیا کے وزیراعظم کے خلاف احتجاج، استعفے کا مطالبہ
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدے کا ضامن اس کی نگرانی کی غرض سے 2 ہزار فوجیوں کو 5 برس کے لیے تعینات کرے گا۔
واضح رہے کہ نیگورنو-کاراباخ عالمی سطح پر آذربائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے لیکن 1994 میں جنگ کے بعد آرمینیا نے قبضہ کیا تھا اور حالیہ لڑائی کے دوران بھی ان کے قبضے میں ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے بعد آرمینیا میں وزیراعظم نیکول پاشینیان کے خلاف شدید احتجاج ہوا تھا اور مظاہرین ان کو غدار قرار دیتے ہوئے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
انہوں نے مظاہرین نے مسلح احتجاج سے گریز کرنے پر زور دیا اور توقع ظاہر کی کہ اپوزیشن بھی اس اقدام کی نفی کرے گی۔
آرمینیا اور آذربائیجان نے بدترین لڑائی کے بعد 10 نومبر کو جنگ بندی معاہدے کا اعلان کیا تھا اور آذربائیجان میں اس کو فتح کے طور پر منایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: آذربائیجان نے انسانی بنیادوں پر آرمینیائی باشندوں کی متنازع خطے سے بے دخلی میں توسیع کردی
آرمینیا کے وزیراعظم نے اس کو سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ شکست کے آثار کو دیکھتے ہوئے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
جنگ بندی معاہدے کے بعد عالمی سطح پر تسلیم شدہ آذربائیجان کے علاقے نیگورنو-کاراباخ میں لڑائی ختم ہوگئی ہے۔
نیگورنو-کاراباخ تنازع
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1990 میں سوویت یونین سے آزادی کے ساتھ ہی کاراباخ میں علیحدگی پسندوں سے تنازع شروع ہوا تھا اور ابتدائی برسوں میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دونوں ممالک کے درمیان 1994 سے حالیہ لڑائی تک تنازع کے حل کے لیے مذاکرات میں واضح پیش رفت نہیں ہوسکی تھی تاہم جنگ بندی کے متعدد معاہدے ہوتے رہے۔
آرمینیا کے پشت پناہی کے ساتھ آرمینیائی نسل کے علیحدگی پسندوں نے 1990 کی دہائی میں ہونے والی لڑائی میں نیگورنو-کاراباخ خطے کا قبضہ باکو سے حاصل کرلیا تھا لیکن نیگورنو-کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، آرمینیا کے درمیان ثالثی کی پہلی کوشش، لڑائی بدستور جاری
بعد ازاں فرانس، روس اور امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا لیکن 2010 میں امن معاہدہ ایک مرتبہ پھر ختم ہوگیا تھا۔
نیگورنو-کاراباخ میں تازہ جھڑپیں 27 ستمبر کو شروع ہوئی تھیں اور پہلے روز کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فوری طور پر روس اور ترکی کشیدگی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
نیگورنو-کاراباخ کا علاقہ 4 ہزار 400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور 50 کلومیٹر آرمینیا کی سرحد سے جڑا ہے۔