چین سمیت 15 ایشیائی ممالک کا دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد
ایشیا کے 15 ممالک نے دنیا کے سب سے بڑے تجارتی معاہدے پر دستخط کردیے، جس سے چین کے اثر و رسوخ کو مزید تقویت دینے کی جانب ایک قدم قرار دیا جارہا ہے۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی) میں چین، جاپان، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سمیت دنیا کی معیشت کے 30 فیصد حصے دار جنوب مشرقی ایشیا کے 10 ممالک شامل ہیں۔
اس معاہدے میں امریکا کو شامل نہیں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 2012 میں تجویز کیے گئے معاہدے کو جنوب مشرقی ایشیائی سربراہی کانفرنس کے اختتام پر حتمی شکل دی گئی جو تمام ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے کورونا وائرس سے متاثرہ معیشت کو بحال کرنے کی جانب ایک کوشش ہے۔
چین کے وزیراعظم لی کی کیانگ نے معاہدے پر آن لائن دستخط کے بعد کہا کہ ‘یہ حقیقت ہے کہ موجودہ عالمی حالات کے تحت اس معاہدے پر 8 سال کے مذاکرات کے بعد دستخط ہوئے ہیں، جس سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ واضح ہے شراکت داری درست سمت گامزن ہے، عالمی معیشت اور ترقی کی سمت بھی درست ہے’۔
معاہدے کے تحت ٹیرف کا کم کیا جائے گا، معاہدے میں امریکا کی عدم شمولیت کو خطے میں چین کی سربراہی میں واشنگٹن کے تجارتی اقدامات کو خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور بزنس اسکول کے ماہر تجارت الیگزینڈر کیپری کا کہنا تھا کہ آر سی ای پی نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریدے دنیا بھر میں معاشی ارادوں کو واضح کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک طرح کا تکمیل قدم ہے’۔
معاہدے سے امریکا کے علاوہ بھارت بھی باہر ہے جو گزشتہ برس چین کی مصنوعات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس بلاک سے الگ ہوگیا تھا۔
آر سی ای پی پر دستخط کرنے والے ممالک نے کہا کہ توقع ہے کہ بھارت دوبارہ شامل ہوجائے گا کیونکہ اس کی جغرافیائی اہمیت ہے۔
اس معاہدے کے تحت مصنوعات کی لاگت کو کم کیا جائے گا اور کمپنیوں کو آسانیاں پیدا کی جائیں گے تاکہ بلاک کے اندر کہیں آسانی سے برآمد کرسکیں کیونکہ ہر ملک کی مختلف ضروریات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق معاہدے میں مالکانہ حقوق کو شامل کیا گیا ہے لیکن ماحولیاتی تحفظ اور مزدوروں کے حقوق پر بات نہیں کی گئی ہے۔
ماہرین اس معاہدے کو خطے میں چین کی تجارتی بالادستی کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اپنے ہی بنائے گئے اتحاد ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ سے الگ ہوگیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گوکہ معاہدے سے امریکی کمپنیاں بھی فائدہ اٹھا سکیں گی تاہم نومنتخب صدر جوبائیڈن کو خطے میں اثر رسوخ کے لیے اس معاہدے پر نظر رکھنی ہوگی۔
آئی ایس ایس مارکٹ کے چیف اکنامسٹ راجیو بسواس کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے باعث امریکا ٹی پی پی کے معاہدے میں شرکت پر نظرثانی کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ ان کے لیے فوری طور پر ترجیح دینے والا مسئلہ نہیں ہوگا۔