• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ایران کی غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کی وضاحت ‘غیر معتبر’ ہے، اقوام متحدہ

شائع November 12, 2020 اپ ڈیٹ November 13, 2020
آئی اے ای اے نے اکتوبر میں ایران کے مقامات کا جائزہ لیا تھا—فائل/فوٹو: اے ایف پی
آئی اے ای اے نے اکتوبر میں ایران کے مقامات کا جائزہ لیا تھا—فائل/فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا ہے کہ غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کی موجودگی سے متعلق ایران کی وضاحت ‘معتبر نہیں’ ہے۔

خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق آئی اے ای اے نے اپنے بیان میں کہا کہ ایرانی حکام کی جانب سے جوہری مقامات کے حوالے سے کچھ معلومات فراہم کی گئیں اور ‘ایجنسی نے ایران کو آگاہ کیا کہ ان کا جواب تکنیکی حوالے سے معتبر نہیں تاہم بدستور زیر غور ہے’۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘ایران کے ایک مقام پر یورینیم کے ذرات کی موجودگی سے متعلق مکمل رپورٹ میں ایجنسی کو درکار وضاحت موجود نہیں ہے’۔

آئی اے ای اے نے اپنی رپورٹ میں متعلقہ مقام کی نشاندہی نہیں کی، تاہم سفارتی ذرائع نے بتایا کہ یہ مقام تہران کے ضلع تورقوز آباد میں ہے جس کے بارے میں اسرائیل نے ماضی میں کہا تھا کہ یہاں مبینہ طور پر خفیہ جوہری سرگرمیاں جاری ہیں۔

خبر ایجنسی کے مطابق معاملے سے واقف ذرائع کا کہنا تھا کہ اس مقام پر یورینیم کے استعمال کے آثار نہیں ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ 2018 کے اختتام تک اس مقام کو یورینیم ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔

دوسری جانب آئی اے ای اے میں ایران کے مندوب کاظم غریب آبادی نے ٹوئٹر میں لکھا کہ ‘جلد بازی میں کسی قسم کے بیان سے اجتناب کرنا چاہیے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘معاملے کے حل کو حتمی شکل دینے کے لیے ملاقاتیں ہو رہی ہیں’۔

مزید پڑھیں: آئی اے ای اے کا ایرانی جوہری تنصیبات کا جائزہ

آئی اے ای اے نے ستمبر میں حاصل کیے گئے نمونوں کی رپورٹ میں دونوں مقامات سے متعلق کوئی نئی معلومات نہیں دی، تاہم اس نمونوں کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔

رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایران کے یورینیم ذخیرے میں 2015 کے عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدوں میں طے کی گئیں شرائط سے 12 گنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ ذخیرے میں اضافے کی شرح آخری رپورٹ کے بعد سست ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں 2015 کے عالمی طاقتوں کے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا جس کے بعد معاہدے پر عمل درآمد پر دراڑ آئی تھی کیونکہ ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

ایران نے جواب میں جوہری سرگرمیوں کی شرائط کو توڑا تھا اور پروگرام میں تیزی لانے کا اعلان کرتے ہوئے یورینیم ذخیرہ کرنے کی حد بھی عبور کر دی تھی۔

واضح رہے کہ رواں برس اگست میں ایران نے اقوام متحدہ کے ادارے ’آئی اے ای اے’ کے ساتھ ایک ماہ کی کشمکش کے بعد 2 سابقہ خفیہ ایٹمی تنصیبات تک رسائی دینے پر اتفاق کرلیا تھا۔

آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے تہران کا دورہ کیا تھا اور اسی دوران اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ طے ہوا تھا۔

رافیل گروسی اور ایرانی جوہری ایجنسی کے سربراہ علی اکبر صالحی نے مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ 'ایران رضاکارانہ طور پر آئی اے ای اے کو ان کی جانب سے بتائے گئے 2 مقامات تک رسائی دے گا'۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ 'آئی اے ای اے کو رسائی دینے کے لیے تاریخوں اور مصدقہ سرگرمیوں پر اتفاق کرلیا گیا ہے'۔

آئی اے ای اے نے واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ بدلے میں ایران سے اس سے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔

اس سے قبل آئی اے ای اے نے تہران اور اصفہان میں تنصیبات تک رسائی کی مہینوں تک کوشش کی تھی، جس کے بارے میں ایران پر الزام تھا کہ وہاں غیر اعلانیہ جوہری مواد رکھا ہوا ہے جو ہتھیار بنانے میں استعمال ہو رہا ہے۔

رواں برس جون میں آئی اے ای اے نے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے قرارداد منظور کیے جانے کے بعد ایران پر دباؤ میں اضافہ کردیا تھا کہ انسپکٹرز کو ان مقامات تک رسائی کا موقع فراہم کیا جائے۔

ایران سے کہا گیا تھا کہ وہ آئی اے ای اے سے این پی ٹی سیف گارڈز ایگریمنٹ اور اضافی اقدامات پر عمل درآمد کے لیے مکمل تعاون کرے۔

یہ بھی پڑھیں: انٹرنیشنل اٹامک انرجی کا ایران سے جوہری مقامات تک رسائی کا مطالبہ

بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں یہ قرارداد فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس کی 25 اراکین نے حمایت اور 2 نے مخالفت کی تھی، جبکہ 7 اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

بعدازاں یکم اکتوبر کو آئی اے ای اے نے ایران کی جانب سے سابقہ خفیہ جوہری تنصبیات تک رسائی کی اجازت کے بعد دوسرے مقام کا جائزہ لیا تھا۔

آئی اے ای اے کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ معاہدے کے بعد دوسرے جوہری مقام کا بھی جائزہ لیا گیا۔

آئی اے ای اے نے مذکورہ مقام کا نام نہیں بتایا لیکن یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ 2003 میں مشکوک سرگرمیاں ہو رہی تھیں تاہم اب آئی اے ای اے اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کو یقین ہے کہ ایران نے خفیہ جوہری سرگرمیوں کو ختم کردیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے نے بیان میں کہا کہ 'ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی کے معاہدے کے مطابق رواں ہفتے دوسرے مقام کا جائزہ لیا گیا اور ماحولیاتی نمونے لیے گئے'۔

یاد رہے کہ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے پر دستخط سے کچھ روز قبل ہی ایران کا دورہ کیا تھا۔

ایران کے ساتھ اس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کا نام دیا گیا تھا، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

عالمی طاقتوں سے معاہدے میں ایران نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کے کام کو جاری نہیں رکھے گا، جس کے جواب میں ان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں اٹھالی گئی تھیں۔

ایران کو اپنا تیل اور گیس دنیا بھر میں کسی بھی ملک کو برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

بعد ازاں جب امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو 2018 میں انہوں نے ایران سے معاہدہ ختم کرنے کا یکطرفہ اعلان کیا اور ایران پر معاشی پابندیاں بحال کردی تھیں۔

امریکی اقدامات کے بعد ایران کو معاشی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ اس نے جوہری سرگرمیوں کو بھی بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024