• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی شرط پر فوج سے بات ہوسکتی ہے، مریم نواز

شائع November 12, 2020
مریم نواز نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا—تصویر: بی بی سی اردو
مریم نواز نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا—تصویر: بی بی سی اردو

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کے قریبی ساتھیوں سے بات چیت کے لیے رابطے کیے گئے ہیں لیکن اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے بات چیت پر غور کیا جاسکتا ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔

برطانوی خبر رساں ادارے (بی بی سی) کی اردو سروس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مریم نواز نے مختلف معاملات پر بات چیت کی۔

دوران انٹرویو انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) فوج سے بات کرنے کے لیے تیار ہے اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اس بات چیت پر غور کیا جاسکتا ہے لیکن شرط یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔

انٹرویو کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے رابطوں سے متعلق انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ارد گرد موجود کئی لوگوں سے رابطہ کیا ہے لیکن ان سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

پاک فوج کی موجودہ قیادت سے مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کا آغاز کیا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جعلی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کوئی اور چلا رہا ہے، کرسی پر عمران خان بیٹھا ہے، مریم نواز

مریم نواز نے کہا کہ فوج میرا ادارہ ہے، ہم اس سے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ضرور بات کریں گے، جو دائرہ کار آئین نے وضع کردیا ہے اس میں رہ کر بات ہوگی اور یہ بات اب چھپ چھپا کر نہیں ہوگی بلکہ عوام کے سامنے ہوگی۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ میں ادارے کے خلاف نہیں ہوں لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اس حکومت کو گھر جانا ہوگا۔

دوران انٹرویو ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ تمام ’اسٹیک ہولڈرز‘ سے بات کرسکتی ہیں، تاہم حکومت کے ساتھ بات چیت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ڈائیلاگ تو اب پاکستان کے عوام کے ساتھ ہوں گا اور یہ ہورہا ہے جبکہ یہ اتنا اچھا ہورہا ہے کہ جو بھی قوتیں ہیں وہ اور جعلی حکومت گھبرائے ہوئے ہیں‘۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اتنا گھبرائے ہوئے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے ردعمل دینا ہے اور اسی میں وہ ایسی غلطیاں کر رہے ہیں کہ عقل حیران رہ جائے۔

ساتھ ہی مریم نواز نے ملک کے عوام کو سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست بند گلی میں نہیں جارہی بلکہ میرے خیال سے بند گلی کی طرف وہ جارہے ہیں جنہوں نے یہ مصنوعی چیز بنانے کی کوشش کی۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) کے مطابق ہم جہاں جارہے ہیں چاہے وہ گوجرانوالہ ہو، کراچی، کوئٹہ یا گلگت بلتستان ہو، ہر جگہ ایک ہی بیانیہ گونج رہا ہے۔

اس بیانیے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ بیانیہ ہے ’ووٹ کو عزت دو اور ریاست کے اوپر ریاست مت بناؤ‘۔

مزید پڑھیں: کراچی واقعہ بڑوں کی لڑائی ہے جس میں عمران خان کہیں نہیں، مریم نواز

اپنی گفتگو میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’یہ بند گلی نہیں ہے، اب یہی راستہ ہے اور یہ آئین و قانون کی بالادستی کی جانب جارہا ہے‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب حالیہ انٹرویو میں کی گئی اس بات کہ وہ نواز شریف کی جانب سے انتخابات میں فوجی مداخلت کے ثبوت لانے کے منتظر ہیں، پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف نے بات میں بات کی ہے اور ثبوت خود عوام کے سامنے آئے ہیں‘۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بات بھی کہیں کہ پیپلز پارٹی کا ایک اپنا مؤقف ہے، مسلم لیگ (ن) کا اپنا مؤقف ہے کو نواز شریف نے واضح کردیا ہے۔

کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ پر دباؤ ڈالنے اور اس کی تحقیقات کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے (ن) لیگ کی نائب صدر نے کہا کہ 'اس پریس ریلیز سے عوام کو جواب نہیں ملے بلکہ مزید سوالات کھڑے ہوئے ہیں، آپ قوم کو یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ جذباتی افسران نے عوامی دباؤ پر ردِعمل دیتے ہوئے یہ کیا، کون سا عوامی دباؤ تھا، وہ جعلی لوگ جنہوں نے مقدمہ درج کروایا اور پھر مدعی ہی بھاگ گیا، ان چند لوگوں کے دباؤ کو آپ عوامی دباؤ کہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ عوامی ردعمل کا جواب دینا اداروں کا کام نہیں منتخب حکومت کا کام ہے، اداروں کا کام اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانا ہے نہ کہ جذبات دکھانا جبکہ اگر واقعی کسی نے یہ جذبات میں آکر کیا ہے تو یہ تو ادارے کے لیے اور پاکستان کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے، تاہم میرے خیال میں ایسا نہیں ہوا اور چند جونیئر افسران کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔

ان ہاؤس تبدیلی یا مائنس عمران خان فارمولے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گی لیکن جب وقت آئے گا تب مائنس عمران خان دیکھا جائے گا‘۔

مریم نواز نے کہا کہ اس حکومت کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے، اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے عمران خان اور ان کی حکومت کو گھر جانا ہوگا اور نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان گلگت بلتستان کو صوبے کا جھانسہ دے کر چلے گئے، مریم نواز

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی بڑا مسئلہ اس لیے نہیں ہیں کیونکہ میں انہیں سیاسی لوگ نہیں سمجھتی، میرا اور میری جماعت کا مقابلہ اس سوچ کے ساتھ ہے جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، وہ ہر اس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا پاکستان سے خاتمہ ہونا بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس لیے تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد انہیں معافی دینے کے مترادف ہوگا جو میری نظر میں جائز بات نہیں ہے، اب ان کے احتساب کا وقت ہے الحاق یا انتخابی اتحاد کا وقت نہیں ہے تاہم دیگر جماعتوں کے ساتھ بات کی جاسکتی ہے‘۔

لیگی رہنما نے کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے قانون سازی میں مسلم لیگ (ن) حکومت کا ساتھ دے گی۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح انہوں نے نواز شریف کے دیگر منصوبوں پر اپنی تختی چپکادی ہے، انہوں نے یہی کوشش یہاں بھی کی ہے لیکن لوگ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ کس کا تھا اور مجھے اُمید ہے کہ جب گلگت بلتستان کے عوام مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کریں گے تو جماعت نا صرف اسے صوبہ بنائے گی بلکہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت اس کا حصہ بھی اسے دے گی۔

ملک میں مہنگائی اور معاشی صورتحال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ خود ہی چیزیں مارکیٹ سے غائب کرتے ہیں اور پھر مہنگی کر کے واپس مارکیٹ میں لے آتے ہیں، یہ نوٹس لیتے ہیں اور چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں، معاشی صورتحال ان نالائقوں کے ہاتھوں بہتر نہیں ہو سکتی اور جب آپ لوگوں کے ووٹ چوری کریں تو یہ حال ہوتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024