• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

شہباز شریف کے خلاف عائد فرد جرم سے ثابت ہوگیا جو کچھ بتایا صحیح تھا، شہزاد اکبر

شائع November 11, 2020
ان کا کہنا تھا کہ دیگر جو مفرور ہیں سامنے آئیں گے تو چارج شیٹ پیش کردی جائے گی —فوٹو: ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ دیگر جو مفرور ہیں سامنے آئیں گے تو چارج شیٹ پیش کردی جائے گی —فوٹو: ڈان نیوز

مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز سمیت دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے جو کچھ بتایا صحیح تھا۔

لاہور میں میڈیا کو بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ 31 صفحات اور 51 پیرا گراف پر مبنی چارج شیٹ میں کرپشن اور کرپشن کی رقم سے کاروبار کے بارے میں تفیصلات موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف، حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

شہزاد اکبر نے کہا کہ منی لانڈرنگ میں ملوث اس گروہ کے 'سرغنہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز ہیں اور 2008 کے بعد جو بھی فیکٹری یا ملز لگی وہ منی لانڈرنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدن سے لگائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریفرنس میں 16 ملزمان ہیں اور ان میں سے 4 مفرور ہیں، مفرور کی فہرست میں لندن میں مقیم شہباز شریف کے بیٹے شہباز شریف اور علی احمد، طاہر نقوی اور ہارون یوسف شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر جو مفرور ہیں، جب وہ سامنے آئیں گے تو ان کے خلاف بھی چارج شیٹ پیش کردی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ علی احمد وہ شخص تھا جسے شہباز شریف نے ڈائریکٹر کا عہدہ دیا اور وہ منی لانڈرنگ میں ملوث رہا جبکہ اسی ریفرنس میں ایک اور شخص نثار گِل پابند سلاسل ہیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے سوال اٹھایا کہ خواتین کی عزت و احترام اپنی جگہ لیکن افسوس کے ساتھ شریف خاندان نے اپنی خواتین کے نام پر ٹرانزیکشن کیوں کی؟

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کی ضمانت میں ایک روز کی توسیع

انہوں نے کہا کہ نصرت شہباز کے نام پر تمام ٹی ٹیز جعلی ہیں اور نصرت شہباز کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جارہی ہے۔

مشیر داخلہ و احتساب نے کہا کہ چارج شیٹ آمدن سے زائد اثاثے بنانے، منی لانڈرنگ اور کرپشن سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی فرنٹ کمپنیوں کو بھی ریفرنس کا حصہ بنایا گیا جس میں نثار ٹریڈنگ، وقار ٹریڈنگ اور دیگر کمپنیاں شامل ہیں۔

علاوہ ازیں شہزاد اکبر نے کہا کہ چارج شیٹ کے مطابق شاہد محمود پاکستان میں اور آفتاب برطانیہ میں منی ایکسچینج کمپنی چلاتے تھے اور قاسم قیوم کے ذریعے یہاں سے کیش رقوم دی جاتی تھی اور ٹی ٹی کی صورت میں موصول کی جاتی تھی۔

ملزم آفتاب نیب کی حراست میں ہیں اور اپنا جرم قبول کرچکے ہیں جبکہ وعدہ معاف گواہ صرف بیان ہی نہیں بلکہ تمام شواہد بھی مہیا کررہے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 51 پیرا کا جواب دینے کے بجائے دونوں باپ بیٹوں نے عدالت میں الزامات سے انکار نہیں کیا بلکہ شہباز شریف نے کہا کہ میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہوں اور عوام کی بڑی خدمت کی ہے جبکہ انہیں 70 سے زائد لوگوں نے ٹی ٹیز بھیجی ہیں جس کا مقصد لوگوں کی لوٹی ہوئی رقوم کو بینک کے ذریعے وائٹ کرنا ہے۔

مزیدپڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ضمانت مسترد، شہباز شریف احاطہ عدالت سے گرفتار

شہزاد اکبر نے کہا کہ جب تک شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے اقتدار میں رہے تب تک انہیں کوئی طبی مسائل کا سامنا نہیں رہا اور جیسے ہی ان کی کرپشن کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو ساری تکالیف سامنے آجاتی ہیں اور ہسپتال اور جیل میں سہولیات کے فقدان کی شکایت کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ آج کی سماعت میں عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے مجموعی 16 ملزمان میں سے 10 پر فرد جرم عائد کردی۔

ان 16 ملزمان میں شہباز شریف خاندان کے 7 اراکین بھی شامل ہیں۔

عدالت کی جانب سے جن ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی ان میں شہباز شریف، حمزہ شہباز، جویریہ علی، فضل داد عباسی، راشد کرامت، محمد عثمان، مسرور انور، نثار احمد، شعیب قمر، قاسم قیوم شامل ہیں۔

مذکورہ ریفرنس میں نصرت شہباز، سلیمان شہباز، رابعہ عمران، ہارون یوسف، طاہر نقوی اور علی احمد پر عدم پیشی کی وجہ سے فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔

یاد رہے کہ 29 ستمبر کو منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت مسترد ہونے کے بعد نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی تھی تاہم 20 اکتوبر کو انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

اس ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 لوگوں کو نامزد کیا گیا جس میں 4 منظوری دینے والے یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور احمد محمود بھی شامل ہیں۔

تاہم مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر)، سلمان شہباز (مفرور) اور ان کی بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست مسترد

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024