سندھ حکومت بھی بغاوت کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کرے، شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی کراچی میں گرفتاری کے معاملے پر پاک فوج کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سندھ بھی ذمہ دار ہے اس لیے ان کو بھی کارروائی کرنی چاہے کہ کیا واقعات تھے جس کے باعث پولیس کے تمام افسران نے ڈیوٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
شبلی فراز نے اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت فی من 1650روپے ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں عوام اور کسان دونوں کا خیال رکھنا ہے تاکہ عوام کو مہنگا آٹا نہ ملے اور کسانوں کو بھی مناسب قیمت ملنی چاہیے کیونکہ وہ اپنے خون پسینے کی محنت سے کمائی کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: گندم کی کم سے کم امدادی قیمت 1600 روپے فی من مقرر کرنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے لیے 100 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے ان کی بنیادی قیمت کم ہوگی جس سے کسان بھی خوش ہوں گے اور عوام بھی خوش ہوں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آٹے کی قیمت میں اضافہ اور بحران میں سندھ کا طریقہ کار بڑا غلط تھا کیونکہ انہوں نے اپنے عوام کو مجبور کیا کہ وہ مہنگا آٹا خریدیں اور اس سے دیگر صوبوں میں بھی محسوس کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ نے گندم بھی جاری نہیں کی جس سے کمی ہوئی اور امدادی قیمت بھی اپنی مرضی رکھتے ہیں حالانکہ پچھلے سال انہوں نے ایک دانہ نہیں خریدا لیکن وفاق نے پاسکو سے ان کو 7 لاکھ ٹن کے قریب گندم دی۔
شبلی فراز نے کہا کہ سندھ اب بھی معیار کے مطابق گندم جاری نہیں کررہا ہے، اس سے قیمتوں میں فرق پڑا اور گندم پیدا کرنے والے بڑے صوبہ پنجاب میں کم قیمت پر آٹا مل رہا تھا جس سے رسد میں مسائل آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم سمجھتے ہیں کہ اس قیمت سے دونوں کے لیے اچھا ہوگا اور حکومت کی کوشش ہے کہ آٹے کی قیمت میں اضافہ نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں گندم کی امدادی قیمت 2 ہزار روپے فی من مقرر کرنے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت بلند سطح پر ہے جبکہ حکومت سندھ جو قیمت دے رہی وہ عالمی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔
‘دفاع سمیت تمام حکومتی امور قرضوں پر چل رہے ہیں’
کابینہ اجلاس میں زیر بحث آنے والے موضوعات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سبسڈیز پر بھی بات ہوئی، اس ملک میں گزشتہ 50 برسوں سے بدقسمتی سے کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں حکومت کا معاشی ڈھانچے اور ادارے جس طرح بنانے چاہیے تھے اس طرح نہیں کیا گیا اور صرف آج کا خیال رکھا گیا اور کل کے بارے میں آنے والی حکومت جانے گی، اس حکمت عملی نے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا، جس میں سبسڈیز بھی ہیں۔
شبلی فراز نے کہا کہ ہمارے سرمایے اور اخراجات کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ ہم قرض اور اس کا سود ادا کریں تو وہ اسی کو پورا کرے گا جبکہ دفاع اور حکومت چلانے سمیت جو بھی کام ہو رہا ہے وہ قرض پر ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سبسڈیز سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں کسی نہ کسی طرح سب شامل ہوتے ہیں، کروڑ پتی شخص کو بھی گندم، بجلی، گیس اور دیگر چیزوں پر وہی سبسڈی مل رہی ہے جو ایک غریب آدمی کو بھی وہی ملتی ہے۔
مزید پڑھیں: ای سی سی کا گندم کی امدادی قیمت میں 25 فیصد اضافہ کرنے سے گریز
ان کا کہنا تھا کہ سبسڈی ان لوگوں کو ملنی چاہئیں جن کا حق بنتا ہے، سبسڈیز تو غریب اور متوسط طبقے کو ملنی چاہئیں اور اس حوالے سے معاون خصوصی برائے خزانہ کو ذمہ داری دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو اعداد وشمار ہم نے دیکھے، اس سے پوری کابینہ کو تعجب بھی ہوا کیونکہ 4 کھرب سے زائد سبسڈیز دی جارہی ہیں اور اس قسم کی سبسڈیز کی تقسیم کے لیے طریقہ کار بنایا جائے تاکہ حق دار تک پہنچیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پر سنجیدگی سے کام شروع کیا گیا ہے اور اس کے لیے احساس اور دیگر دستاویزات استعمال کررہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔
‘کووڈ سے اموات میں اضافہ’
شلبی فراز نے کہا کہ اجلاس میں کووڈ-19 پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، اللہ کے فضل سے ہم نے جو حکمت عملی بنائی اس سے ہمیں کم نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جوں جوں سردی بڑھ رہی ہے، اس کی شرح اوپر جا رہی ہے اور اب 5 فیصد تک پہنچ گئی ہے، اسی طرح اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے روزانہ 23 افراد کی اموات ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق ہر اس سرگرمی پر نظر رکھیں گے جو عوام کے روزگار اور صحت کے معاملات پر اثر کا باعث نہیں ہو رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ لوگوں کی جانیں جائیں اور جو معیشت بہتر ہوئی ہے اس پر کوئی اثر پڑے، اس لیے روزگار اور صنعتوں کے علاوہ دیگر شعبوں میں سختی کریں گے۔
‘آئی جی کے معاملے پر حکومت سندھ کو کام کرنا ہے’
کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے متعلق آرمی چیف کی نوٹس پر ہونے والی کارروائی کے اعلان سے متعلق سوال پر شبلی فراز نے کہا کہ ہم اس بات کو بہت سراہتے ہیں کہ پاک افواج میں خود احتسابی کا عمل حرکت میں آیا اور انہوں نے اپنے دو افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ فیصلہ تو ہوگیا حالانکہ اس کی تفصیلات دی گئی ہیں اور اس کا پس منظر بھی یہی ہے کہ اگر تو وقت پر ایف آئی آر درج ہوجاتی تو یہ واقعات اس قدر گمبھیر نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے سمیت پاکستان کے کئی لوگ مزار قائد پر ہونے والے معاملے پر رنجیدہ اور مشتعل تھے۔
مزید پڑھیں: کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی کہ رینجرز پر عوام کا دباؤ آیا تو انہوں نے آئی جی سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر مسئلہ حل نہیں ہوا تو مسائل ہوں گے لیکن اب انہوں نے فیصلہ کیا جس کی ہم قدر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'اب دوسری طرف حکومت سندھ نے اپنی انکوائری رپورٹ دینی ہے اس کو بھی دیکھیں گے لیکن حکومت سندھ کو بتانا ہے کہ ان کے آئی جی اور پولیس بھی اپنے ان افسران کے خلاف اسی طرح کی انکوائری کریں گے جنہوں نے ایک قسم کی بغاوت کردی تھی اور پورے سندھ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہم اپنی طرف سے اس قسم کی چیزیں نہیں کریں گے، انہوں نے اپنا کام کردیا، ایک ڈسپلن فورس ہیں، ایک میکنزم تھا اور مقررہ وقت میں انکوائری ہوئی اور اپنے فیصلے کر دیے ہیں'۔
شبلی فراز نے کہا کہ 'اب سویلین سائیڈ پر بھی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم یہ مثال قائم کریں کہ جو غلط ہے وہ غلط ہے'۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ 'حکومت سندھ بھی ذمہ دار ہے اس لیے ان کو بھی کارروائی کرنی چاہے کہ کیا واقعات تھے جس کے باعث سندھ کی پولیس کے تمام افسران نے ڈیوٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا، اب حکومت سندھ پر ہے، انہیں ثابت کرنا ہے کہ وہ بھی قانون پر عمل درآمد کروائیں گے اور اس طرف جو کچھ ہوا ہے اس کو بھی وہ دیکھیں گے تاکہ یہ احساس پیدا ہو کہ ہر طرف ڈسپلن اور احتساب ہے'۔