کورونا سے متاثر بعض بچوں کی آنتوں کے اندر وائرس میں برق رفتاری سے تبدیلیوں کا انکشاف
نوول کورونا وائرس کچھ بچوں کے معدے میں برق رفتاری سے خود کو بدلتا ہے یا یوں کہہ لیں میوٹیشن کے عمل سے گزرتا ہے۔
یہ بات چین میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
عام طور پر نئے کورونا وائرس کی اقسام میں ہر ماہ کے دوران ایک یا 2 تبدیلیاں ایک سے دوسرے فرد میں پھیلنے کے دوران آتی ہیں۔
مگر اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے کچھ بچوں کی آنتوں میں وائرس کی ساخت یا افعال میں ایک دن کے اندر ہی نوول میوٹیشن کو دریافت کیا گیا، جو اس دوران اپنی متعدد نقول بنارہا ہوتا ہے۔
بیجنگ انسٹیٹوٹ آف جینومکس کی اس تحقیق میں شامل پروفیسر لی منگ کون نے بتایا 'ہم نے 182 مقامات 229 انٹر ہوسٹ ورژنز کو شناخت کیا'۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف جینیٹکس اینڈ جینومکس میں شائع ہوئے۔
وائرس میں آنے والی تبدیلیاں اس وبا سے لڑنے کے لیے ادویات اور ویکسینز کے لیے خطرہ ہیں، کیونکہ اس سے ان کی افادیت متاثر ہوسکتی ہے۔
چائنا نیشنل سینٹر فار بائیو انفارمیشن کے مطابق اب تک دننیا بھر میں سائنسدانوں نے نئے کورونا وائرس کے آر این اے میں 21 ہزار سے زائد تبدیلیوں کو شناخت کیا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر تبدیلیاں وائرس کی ایک فرد کے جسم سے حاصل کی گئے وائرس کی ایک قسم میں دریافت کی گئی اور کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ تو بس آغاز ہے، کیونکہ دنیا کی بیشتر آبادی کے نمونے حاصل نہیں ہوسکے۔
یہ وائرس انسانی جسم کے اندر خود کو مختلف اقسام میں بدل سکتا ہے، اس چیز کو طبی زبان میں انٹرا ہوسٹ میوٹیشن کہا جاتا ہے۔
مگر سائنسدانوں کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھے، اگرچہ ایک مریض میں مختلف اقسام کو دیکھا گیا، مگر وہ کو انفیکشن کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں شواہد کے لیے اس بیماری کو شکست دینے والے 9 بچوں کے فضلے کے نمونے اکٹھے کیے گئے۔
محققین نے دریافت کیا کہ منہ یا ناک کے مواد کے مقابلے میں فضلے کے نمونے میں زیادہ وائرل مواد ہوتا ہے، کچھ پرانی تحقیقی رپورٹس کے مطابق کورونا وائرس انسانی آنتوں کی سطح پر موجود خلیات پر موثرانداز سے حملہ آور ہوتا ہے۔
وائرسز میں ہر وقت تبدیلیاں آتی ہیں اور اب تک نئے کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیاں بظاہر کسی نقصان کا باعث نظر نہیں آتیں۔
مگر چینی محققین نے دریافت کیا کہ ایک بچے میں صرف ایک دن کے اندر ہی غیرمتوقع میوٹیشن ہوئی، جس میں وائرس کی ساخت اور سرگرمیاں تبدیل ہوگئیں، تاہم اس کے اضافی اثرات کے بارے میں ابھی تحقیق کرنا باقی ہے۔
اس سے ملتی جلتی جینیاتی تبدیلیاں دیگر بچوں میں 5 دن کے اندر دیکھنے میں آئیں۔
مگر اتنی برق رفتار تبدیلیاں بری خبر ہے؟ اس بارے میں سائنسی برادری کی رائے ملی جلی ہے۔
کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایک تبدیلی عموماً وائرس کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتی ہے، مگر دیگر کا کہنا ہے کہ کچھ وائرسز جیسے ایچ آئی وی، برق رفتار تبدیلیوں کو ویکسین یا ادویات کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ وائرل جینز میں برق رفتار تبدیلیاں بظایر اینٹی وائرل ادویات کے خلاف حفاظتی ردعمل کا کام کررہی تھیں اور ایک سے دوسرے بچے میں جینیاتی تبدیلیوں کا حجم مختلف تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ان مسائل کی وجہ سے وائرس میں مستقبل میں آنے والی تبدیلیوں کی ٹریکنگ اور پیشگوئی بہت مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق میں انٹرا ہوسٹ ڈائنامکس کی تفصیلی تحقیق کی ضرورت کی عکاسی کرتی ہے، جس میں ہر عمر اور علاقوں کے افراد کو شامل کیا جانا چاہیے۔