امریکی صدارتی انتخاب کا نتیجہ، نیتن یاہو کو دھچکا، فلسطینیوں کے لیے 'اُمید کی کرن'
یروشلم: جو بائیڈن کی امریکا کے صدارتی انتخاب میں جیت اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے لیے ایک دھچکا ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مضبوط حلیف ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے واشنگٹن اور فلسطینیوں کے درمیان نئے تعلقات کو فروغ مل سکتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے کہا کہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ، اسرائیل کا اب تک کا سب سے مضبوط حلیف تھا جبکہ ریپبلکنز نے اسرائیلی وزیر اعظم کے حق میں پالیسیز اپنائی تھیں۔
نیتن یاہو نے اتوار کو ٹوئٹر پر اسرائیل کے مفادات کو آگے بڑھانے والے ٹرمپ کے اقدامات کا شکریہ ادا کرنے سے قبل جو بائیڈن اور نائب صدر کے لیے منتخب کمالا ہیرس کو مبارکباد پیش کی۔
ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو ختم کردیا تھا جو نیتن یاہو کا ناپسندیدہ تہران اور عالمی قوتوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔
مزید پڑھیں: جلد وائیٹ ہاؤس کے مہمان بننے والے جوبائیڈن خاندان سے ملیے
انہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا ’غیر منقسم دارالحکومت‘ تسلیم کرنا، بین الاقوامی اتفاق رائے کو توڑتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو شہر میں منتقل کرنے جیسے اقدامات بھی کیے تھے۔
انہوں نے گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیلی خودمختاری کی حمایت کی - جسے شام سے قبضہ کر لیا گیا - اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاریوں پر تنقید کرنے سے گریز کیا۔
انہوں نے گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیلی خودمختاری کی حمایت کی تھی جسے شام سے قبضے میں لیا گیا تھا اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاریوں پر تنقید کرنے سے گریز کیا تھا۔
اسرائیلی ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے تھنک ٹینک کے ووٹنگ سے قبل کے سروے کے مطابق 63 فیصد اسرائیلی چاہتے تھے کہ ٹرمپ دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کریں۔
امریکی نتائج کے اعلان کے بعد 28 سالہ اسرائیلی ٹرک ڈرائیور شموئل نیمرووسکی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ’ٹرمپ بہتر ہوتا‘ تاہم وہ جو بائیڈن سے بھی مطمئن ہیں کیونکہ منتخب صدر کی ’اسرائیل کے خلاف کوئی رائے نظر نہیں آتی‘۔
درحقیقت جو بائیڈن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات گہرے ہیں اور وہ کئی دہائیوں سے یہودی ریاست کے حامی رہے ہیں۔
انہوں نے سینیٹ میں پہلی بار منتخب ہونے کے چند مہینوں بعد 1973 میں اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا۔
براک اوباما کے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے 2015 کے ایک تقریر میں جو بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکا ’یہودی عوام کے وطن کی حفاظت کے مقدس وعدے‘ پر عمل پیرا ہے۔
2012 میں نائب صدر کی بحث کے وقت جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اور بینجمن نیتن یاہو ’39 سال سے دوست ہیں‘۔
بینجمن نیتن یاہو نے اپنے بیان میں جو بائیڈن کو اسرائیل کا ایک بہت بڑا دوست‘ کہہ کر پکارا جس سے ان کے ’ایک لمبے اور گہرے ذاتی تعلقات‘ رہے ہیں۔
جو بائیڈن نے 1995 میں یروشلم میں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کے 1995 کے سینیٹ کے بل کی حمایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ دوسری مدت کیلئے منتخب نہ ہونے والے 21 ویں صدی کے پہلے صدر
جو بائیڈن کی 2020 کی مہم میں کہا گیا کہ وہ ٹرمپ کے سفارت خانے کے اقدام کو تبدیل نہیں کریں گے بلکہ اسرائیل سے منسلک مشرقی یروشلم میں ’فلسطینیوں کو شامل کرنے‘ کے لیے ایک قونصل خانہ دوبارہ کھولیں گے۔
کشیدگی بڑھ رہی ہے؟
تاہم جو بائیڈن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ٹرمپ کے چند اقدامات کو واپس لیں گے خاص طور پر مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کی تعمیر کی مخالفت کرکے، جسے صدر منتخب ہو نے سے قبل اسے خطے کے لیے رکاوٹ قرار دیا ہے۔
بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی بحالی کریں گے جسے ٹرمپ نے ختم کردیا تھا۔
واشنگٹن میں اسرائیل کے سابق ایلچی مائیکل اورین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر جو بائیڈن ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کشیدگی بڑھ جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونے کا امکان ’بہت زیادہ’ ہے۔
اسرائیل کی بار الان یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ایٹن گلبوا کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے لیے جو بائیڈن کی کوششوں سے اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان تعلقات ٹرمپ کی ثالثی میں معمول پر لانے کے معاملات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل کا بائیکاٹ
ایٹن گلبوا کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکام کو یہ بھی تشویش ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں اسرائیل کے ناقدین جو بائیڈن کی انتظامیہ کو متاثر کریں گے۔
مزید پڑھیں: کیا ٹرمپ21 ویں صدی میں دوسری بار منتخب نہ ہونے والے پہلے صدر ہوں گے؟
ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز، جو ممکنہ طور کابینہ کے رکن بنیں گے، نے نیتن یاہو کو ایک ’رجعت پسند نسل پرست‘ قرار دیا ہے۔
اسرائیل نے اس دوران فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کے معاملے پر دو ڈیموکریٹک کانگریس وومن راشدہ طلیب اور الہان عمر پر اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ، قبضہ اور پابندیوں کی تحریک کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
ان کے مطابق ’ڈیموکریٹک پارٹی کی ترقی پسند، بنیاد پرست شاخ اسرائیل مخالف‘ ہے اور قوت حاصل کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ ان کا پالیسی سازی پر کتنا اثر پڑے گا‘۔
فلسطینی انتظامیہ، جس نے ٹرمپ کو اسرائیل کی بہت زیادہ حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات منقطع کردیے تھے، نے جو بائیڈن اور کمالا ہیرس کو مبارکباد دی ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے آنے والی امریکی انتظامیہ سے ‘فلسطین امریکا تعلقات کو بڑھانے‘ پر زور دیا۔
محمود عباس نے کہا کہ وہ (فلسطینی عوام) کی آزادی، انصاف اور وقار کے حصول کے لیے نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔