• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

بلاول بھٹو کو گلگت بلتستان میں انتخابی مہم جاری رکھنے کی اجازت

شائع November 9, 2020
پیپیلز پارٹی نے سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان میں درخواست دائر کی تھی—تصویر: بلاول بھٹو ٹوئٹر
پیپیلز پارٹی نے سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان میں درخواست دائر کی تھی—تصویر: بلاول بھٹو ٹوئٹر

گلگت بلتستان کی سپریم ایپلیٹ کورٹ نے چیف کورٹ کے حکم کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے دائر درخواست منظور کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو انتخابی مہم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمٰن کے مطابق عدالتی فیصلے کے تحت چیئرمین پیپلز پارٹی 12 نومبر تک گلگت بلتستان میں قیام اور انتخابی مہم جاری رکھ سکتے ہیں۔

چیف جج ملک حق نواز اور علی بیگ پر مشتمل گلگت بلتستان کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 7 نومبر کو چیئرمین پیپلز پارٹی، وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور سمیت دیگر سرکاری عہدیداران کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر 72 گھنٹوں کے اندر علاقے سے باہر نکل جانے کا حکم جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان عدالت کے فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی کی درخواست

مذکورہ حکم پیپلز پارٹی کے نائب صدر جمیل احمد کی جانب سے گلگت بلتستان کے چیف کورٹ سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر 15 نومبر کے انتخاب تک وفاقی وزرا اور سرکاری عہدیداروں کو علاقے سے باہر نکالنے کی درخواست پر ہونے والی سماعت میں جاری کیا گیا تھا۔

بعدازاں چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیپیلز پارٹی نے سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان میں درخواست دائر کی تھی۔

یہاں یہ مدِ نظر رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت سرکاری عہدیداران بشمول صدر، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، گورنرز، چیف وزرا، صوبائی وزرا، وزیر اعظم کے مشیر اور وزرائے اعلیٰ، میئرز، چیئرمینز، ناظم اور ان کے نائب کو کسی بھی طرح کی الیکشن مہم میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

عدالتی حکم میں سرکاری عہدیداروں کی وضاحت کے لیے قومی احتساب آرڈیننس (نیب) 1999 کا حوالہ دیا گیا جس میں اراکین پارلیمان بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: وزرا، اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو 3 روز میں گلگت بلتستان چھوڑنے کا حکم

عدالت کا کہنا تھا کہ'سرکاری افسران کی تعریف نہیں کی گئی کہ کون سے عہدیداران سرکاری افسران میں شامل ہوتے ہیں' اور یہ اصطلاح نیب آرڈیننس میں واضح کی گئی ہے جس کے تحت تمام منتخب اراکین اسمبلی اور سینیٹ پر بھی انتخابی مہم چلانے پر پابندی ہے۔

عدالتی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی نائب صدر اور سینیٹ کی پارلیمانی رہنما شیریں رحمٰن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں اور نہ ہی گلگت بلتستان کوئی انتظامی اختیارات ہیں تو وہ کس طرح انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

شیریں رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی رہنما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران صرف ان کے ماضی میں کیے جانے والے وعدوں اور کارکردگی کی نشاندہی کی ہے، انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ سپریم اپیلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان کی جانب سے فیصلہ ان کے حق میں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کیلئے پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز

چیئرمین پیپلز پارٹی اپنی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ 21 اکتوبر کو اسکردو پہنچے تھے اور انتخابی مہم کے سلسلے میں وہ 3 ہفتے تک گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں 3 ہفتوں کے قیام کے دوران مختلف جلسوں سے خطاب کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 24 عام نشستوں پر انتخابات 15 نومبر کو ہوں گے، جو اس سے قبل 18 اگست کو ہونے تھے تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ملتوی کردیے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024