• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

گلگت بلتستان میں مرد و خواتین ووٹرز کے فرق میں مزید اضافہ

شائع November 9, 2020
گلگت بلتستان میں مرد و خواتین ووٹرز کے فرق میں مزید اضافہ ہوا ہے— فوٹو: ڈان
گلگت بلتستان میں مرد و خواتین ووٹرز کے فرق میں مزید اضافہ ہوا ہے— فوٹو: ڈان

اسلام آباد: گلگت بلتستان میں 2020 کے انتخابات کے لیے ووٹرز کی فہرست میں 2015 کے مقابلے میں 21 فیصد کے ساتھ ایک لاکھ 26 ہزار 997 نئے ووٹرز کی رجسٹریشن ہوئی ہے، تاہم اس کے نتیجے میں خواتین کی نمائندگی میں کمی آئی ہے اور ووٹرز کے مابین صنفی فرق مزید بڑھ گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ صنفی نمائندگی کے نقطہ نظر سے ایک لاکھ 26 ہزار 997 ووٹرز میں سے 75 ہزار 888 مرد ووٹرز کی زیادہ تعداد کے مقابلے میں 51 ہزار 109 ووٹرز کے ساتھ خواتین ووٹرز کی تعداد نسبتاً کم تھی، اس طرح مرد و خواتین ووٹرز میں فرق 7 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد ہو گیا ہے، اس سال کے مطابق مجموعی طور پر صنفی فرق میں 2 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات میں آر ٹی ایس کے استعمال کا فیصلہ نہ ہوسکا

فافن نے اتوار کے روز میڈیا کو 'انتخابات میں خواتین: گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کا تجزیہ' کے عنوان سے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق دیامر ڈویژن میں صنفی فرق سب سے زیادہ 10فیصد رہا، اس کے بعد بلتستان ڈویژن میں صنفی فرق 8 فیصد جبکہ گلگت ڈویژن میں 8 فیصد صنفی فرق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ خطے میں پچھلے انتخابات کے بعد سے اب تک ایک لاکھ 26 ہزار 997 ووٹروں کو انتخابی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، 2015 کے انتخابی فہرستوں پر رجسٹرڈ 6 لاکھ 18 ہزار 364 ووٹرز کے مقابلے میں یہ تعداد بڑھ کر 7 لاکھ 45 ہزار 361 رائے دہندگان تک پہنچ گئی ہے اور 21 فیصد اضافے کی عکاسی کرتا ہے، 2015 کے انتخابات کے مقابلے میں انتخابی فہرستوں میں ووٹرز کی تعداد میں اضافے کا جب پتا لگایا گیا تو ڈویژنز اور اضلاع میں نسبتاً یکساں رفتار کے ساتھ ووٹرز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔

تاہم انتخابی حلقوں کے رجحانات جی بی اے-7 (اسکردو-1)ٍ میں 4 فیصد سے جی بی اے-15 میں 30 فیصد تک نمایاں تغیرات دیکھے گئے۔

ڈویژن کی سطح پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ اضافہ گلگت میں 55 ہزار 53 ووٹروں کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا، اس کے بعد بلتستان میں 38 ہزار 581 نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے جبکہ دیامر میں 33 ہزار 363 نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے، جب اس تناسب کی تبدیلی کا جائزہ لیا جائے تو دیامر، رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 22 فیصد اضافے کے ساتھ آگے ہے، اس کے بعد گلگت (21 فیصد) اور بلتستان (18 فیصد) ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان: نگراں حکومت کا انتخابات میں فوج کی مدد نہ لینے کا فیصلہ

صنفی فرق کے نقطہ نظر سے رجسٹرڈ ووٹرز میں اضافہ دو حصوں میں معمولی اضافے کی عکاسی کرتا ہے، مَردوں کی تعداد میں غیر متناسب اضافے کے ساتھ دیامر اور بلتستان کے لیے 2020 کی انتخابی فہرستیں بالترتیب 10 فیصد اور 8 فیصد کے صنفی فرق کو ظاہر کرتی ہیں جبکہ صنف کا فرق گلگت میں تبدیل نہیں ہوا اور 8 فیصد پر مستقل برقرار ہے۔

جب کہ تمام اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا، سب سے زیادہ اضافہ ضلع دیامر میں ریکارڈ کیا گیا جہاں فہرست میں 23 ہزار سے زیادہ ووٹرز شامل کیے گئے اور کم سے کم اضافہ ضلع کھرمنگ میں دیکھنے کو ملا جہاں صرف 4 ہزار 911 اضافی رائے دہندگان نے اندراج کیا۔

مجموعی طور پر دو اضلاع میں سے ہر ایک میں 20 ہزار سے زیادہ نئے رائے دہندگان کا اندراج ہوا، دوسرے دو اضلاع میں سے ہر ایک میں 15 ہزار سے 20 ہزار کے درمیان نئے ووٹرز کا اندراج ہوا۔

باقی اضلاع میں سے دو اضلاع میں 10 سے 15 ہزار کے درمیان اضافے کی عکاسی ہوتی ہے جبکہ چار اضلاع میں نئے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 10 ہزار سے بھی کم اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق صرف ہنزہ میں صنفی فرق میں کمی دیکھنے کو ملی، رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں اضافہ 10 اضلاع میں سے تین کے علاوہ تمام میں ووٹروں کی فہرست میں شامل مَردوں کی غیر متوقع طور پر زیادہ تعداد کی عکاسی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کی حیثیت دینے کا اعلان

ان تینوں میں سے صرف ہنزہ ضلع میں تناسب سے زیادہ تعداد میں خواتین ووٹرز کے اندراج کی عکاسی ہوتی ہے کیونکہ انتخابی فہرست میں ان کی شرح سن 2015 میں 48 فیصد سے قدرے بڑھ کر 2020 میں 49 فیصد ہو گئی ہے۔

غذر اور کھرمنگ اضلاع میں مستقل 8 فیصد کا صنفی فرق ظاہر ہوتا ہے جبکہ باقی 7 اضلاع میں متناسب طور پر زیادہ مرد شامل ہوئے جس کے نتیجے میں صنفی فرق کی خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ووٹروں کے چار اضلاع (شگر، نگر، دیامر اور اسکردو) کی فہرست میں صنفی فرق 4 فیصد کے تقابلی اضافے کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ باقی تین اضلاع (گھانچے، استور اور گلگت) میں تقابلی اضافہ 2 فیصد ہے۔

ڈویژن اور ضلعی سطح کے رجحانات کی طرح رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کا جب 2015 کے انتخابات کے سے موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ عالمی سطح پر بھی ایک مختلف اضافے کی عکاسی کرتی ہے، حلقہ وار فہرست میں نئے ووٹرز کی تعداد میں فرق اسکردو ایک جی بی اے-7 میں 643 ووٹرز سے لے کر غذر 2 جی بی اے-20 میں کم از کم 8 ہزار 133 نئے ووٹرز تک ہے، حلقے کی سطح پر یہ رجحان 11 حلقوں کے رجسٹرڈ ووٹرز میں 20 فیصد سے زیادہ اور 12 دیگر حلقوں میں 15 اور 20 فیصد کے درمیان ظاہر ہوتا ہے جبکہ صرف ایک حلقے میں نئے ووٹرز میں 5فیصد سے کم اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، نئے انتخابی حلقوں میں دو حلقوں کے علاوہ تمام حلقوں میں مَردوں کی زیادہ غیر متناسب تعداد رجسٹرڈ تھی، صرف ایک حلقہ جی بی اے 6 ہنزہ میں خواتین ووٹرز کی تعداد میں جس فیصد سے اضافہ ہوا وہ مَردوں سے زیادہ ہے (مَردوں میں 19 فیصد اضافے کے مقابلے خواتین میں 22 فیصد اضافہ) ہوا، جیسا کہ دوسرے حلقے جی بی اے 7 اسکردو میں فیصد کی شرح سے مَردوں اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ 4 فیصد پر برقرار ہے۔

باقی 22 حلقوں میں ووٹروں کی فہرست میں خواتین کے مقابلے میں مرد ووٹرز کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے اور یہ تناسب ایک فیصد سے 20 فیصد کے درمیان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں انتخابات 15 نومبر کو ہوں گے

رائے دہندگان کی فہرست میں مَردوں کی تعداد میں غیر متناسب اضافہ نے 24 حلقوں میں سے 20 میں صنفی فرق کو بڑھا دیا ہے، ان 20 حلقوں میں سے 12 انتخابی حلقوں میں صنفی فرق میں دو فیصد اضافہ ہوا، پانچ حلقوں میں 4 فیصد اور باقی تین حلقوں میں 4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

صنفی فرق صرف ایک حلقے میں کم ہوا جبکہ یہ باقی تین حلقوں میں مستقل طور پر برقرار رہا۔

اس وقت 17 حلقوں میں صنفی فرق 5 فیصد اور 10 فیصد کے درمیان ہے جبکہ صرف تین حلقوں میں 5 فیصد سے بھی کم صنفی فرق ہے۔

2020 کی گلگت بلتستان کے ووٹرز فہرست میں شامل 7 لاکھ 45 ہزار 361 ووٹرز میں سے 46 فیصد یعنی 3 لاکھ 39 ہزار 998 خواتین ہیں، یہ اعدادوشمار خواتین کے مقابلے میں 65 ہزار 365 مزید مردوں کی رجسٹریشن کی عکاسی کرتے ہیں، فافن کے مطابق اعداد و شمار مثالی نہیں ہیں لیکن سیاق و سباق کے تناظر میں خطے کی ایک حوصلہ افزا تصویر کی عکاسی کرتے ہیں جو خاص طور پر دیہی علاقے ہیں جس میں اہم ماحولیاتی اور بنیادی انفرا اسٹرکچر کے چیلنجز ہیں جو قومی شناختی کارڈز کی فراہمی سمیت اہم عوامی خدمات تک رسائی کو روکتے ہیں اور 2015 کے انتخابات کے بعد سے انتخابی فہرست میں اندراج کی بنیادی ضرورت ہے۔

فافن نے توقع ظاہر کی کہ انتخاب کے بعد کے مرحلے میں نمائندے کے رائے دہندگان کی فہرست کے معاملے کو تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز خصوصاً گلگت بلتستان کے الیکشن کمیشن کی مشترکہ تشویش کی ایک وجہ قرار دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی تحلیل، میر افضل نگراں وزیراعلیٰ مقرر

ان چار حلقوں سے شروع کرتے ہوئے جہاں صنفی فرق 10 فیصد کی قانونی حد سے تجاوز کرتا ہے، وہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ووٹ ڈالنے کی اہل خواتین کی رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے تاکہ مرد و خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کے درمیان توازن قائم کرے۔

خطے میں رائے دہندگان کی فہرست میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کے مخصوص مقصد کے ساتھ اسٹیک ہولڈرز کے مابین تعاون اور ہم آہنگی کے سانچے کو خطے میں نقل کیا جاسکتا ہے، جہاں ایک حلقے میں ذیلی شق (1) کے تحت اختلافی اعداد و شمار میں 10 فیصد سے زیادہ فرق ہے، وہاں کمیشن ایکشن 2017 کے سیکشن 47 (2) کے تحت اس طرح کے تغیرات کو کم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024