اسلام آباد: پولیس حراست میں ملزم کی پراسرار ہلاکت، تھانہ ایس ایچ او معطل
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں ملزم کی پراسرار ہلاکت پر اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو معطل کردیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزم منیر عرف محسن کی جمعے کی رات تشدد سے طبعیت بگڑ گئی تھی جس پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہسپتال پہنچنے تک ملزم کی موت واقع ہوچکی تھی'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ملزم کی ہلاکت پولیس حراست میں ہوئی جس کے بعد پولیس کی جانب سے معاملے کو دبانے کی پوری کوشش کی گئی'۔
مزید پڑھیں: ’تشدد سے ہلاک‘ ہونے والے صلاح الدین کے اہلِ خانہ نے پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا
تاہم ملزم کی موت کے فوری بعد آئی جی نے معاملے کا نوٹس لیا اور معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی آپریشنز کی سربراہی میں ایس پی سی ٹی ڈی، ایس پی انوسٹیگیشن اور ایس پی (دیہی) پر مشتمل کمیٹی قائم کردی۔
کمیٹی ایک ہفتے میں میرٹ پر انکوائری کرکے آئی جی کو رپورٹ دے گی۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزم کے خلاف ڈکیتی کے مقدمات درج تھے۔
بعد ازاں واقعے کے دو روز بعد تھانہ شالیمار کے ایس ایچ او سلمان شاہ کو معطل کردیا گیا اور وائرلیس کے ذریعے تمام پولیس افسران کو معطلی سے آگاہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ پولیس کے تشدد سے ملزمان کی ہلاکت کے واقعات پاکستان میں اکثر رونما ہوتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال فیصل آباد میں ایک اے ٹی ایم کو توڑنے کے بعد اس میں سے مبینہ طور پر کارڈ چوری کرتے ہوئے کیمرے کی جانب دیکھ کر منہ چڑانے والے صلاح الدین کی بھی پولیس تشدد سے ہلاکت ہوئی تھی۔
صلاح الدین 31 اگست کو مبینہ طور پر رحیم یار خان میں شاہی روڈ پر قائم حبیب بینک لمیٹڈ کے اے ٹی ایم بوتھ میں مشین کے بیرونی حصے کو توڑنے میں مصروف تھا جب اسے دیگر صارفین نے رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
جس کے چند روز بعد ہی ضلعی پولیس افسر کے ترجمان ذیشان رندھاوا کا دعویٰ سامنے آیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی لاک اپ میں عجیب حرکتیں کررہے تھے تو 'اچانک ان کی طبیعت خراب' ہوگئی اور بعدازاں ان کی موت واقع ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس حراست میں اے ٹی ایم کارڈ چور کی ہلاکت، مقدمے میں ایس ایچ او نامزد
تاہم ملزم کے لواحقین کی جانب سے پولیس پر صلاح الدین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر دوران حراست قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، بعد ازاں سوشل میڈیا پر صلاح الدین کی نعش پر تشدد کی مبینہ تصاویر بھی وائرل ہوگئی تھیں جس سے ملک بھر میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی تھی۔
اس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صلاح الدین ایوبی کی موت کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا اور صلاح الدین کے والد محمد افضال کی درخواست پر اسٹیشن ہاؤس افسر محمود الحسن، تفتیشی افسر سب انسپکٹر شفاعت علی اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) مطلوب حسن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا۔
اس کے بعد ڈی پی او رحیم یار خان عمر فاروق سلامت کو معطل کرکے انویسٹی گیشن سپرنٹنڈنٹ پولیس حبیب اللہ خان کو ڈی پی او آفس کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔
تاہم متاثرہ شخص کے والد نے وزیراعلیٰ پنجاب سے شکایت کی تھی کہ متعلقہ افسر مبینہ طور پر کیس میں اثر انداز ہورہے، جس پر ان کا بھی تبادلہ کردیا گیا تھا۔
بعدازاں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوگئی تھی کہ ملزم پر موت سے قبل بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا۔
حتمی رپورٹ کے مطابق فرانزک ٹوکسی کولوجی اور فرانزک ہسٹو پیتھولوجی رپورٹس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا تھا کہ زخم موت سے قبل آئے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ممکنہ طور پر اسی کے نتیجے میں موت واقع ہوئی۔
تاہم بعد ازاں صلاح الدین کے اہلخانہ نے پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا تھا۔