• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

عبدالقادر بلوچ، ثنااللہ زہری کا مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان

شائع November 7, 2020
عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ پارٹی قیادت نے بلوچستان کو فیصلوں میں نظر انداز کیا اور یتیموں کی طرح چھوڑ دیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز
عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ پارٹی قیادت نے بلوچستان کو فیصلوں میں نظر انداز کیا اور یتیموں کی طرح چھوڑ دیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر و سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان کردیا۔

کوئٹہ میں ہم خیال ساتھیوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں جلسے کے بعد (ن) لیگ سے راستے جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم 2010 میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے اور پارٹی کو 2013 کے انتخابات میں قربانیاں دے کر 22 اراکین کی اکثریت دلائی، لیکن شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان بلوچستان آتے ہیں اور ایک کمرے میں ملاقاتیں کرکے فیصلہ کرتے ہیں کہ ثنااللہ زہری بلوچستان اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر نہیں ہوں گے اور جہاز میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ ہم نے 3 جوانوں کی شہادت پیش کی اس کے باوجود ثنااللہ زہری سے ان کا حق چھینا جاتا ہے اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی لیکن ہم نے یہ زیادتی بھی برداشت کی۔

عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ پارٹی قیادت نے بلوچستان کو فیصلوں میں نظر انداز کیا اور یتیموں کی طرح چھوڑ دیا گیا، نواز شریف کوئٹہ اور گوادر کے سوا بلوچستان میں کہیں نہیں گئے، جبکہ نواز شریف کے دور میں مجھے فاٹا کی وزارت دی گئی جس کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کے باعث میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) میں اختلافات، عبدالقادر بلوچ اور ثنااللہ زہری کا پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے سے ایک روز قبل مجھے فون پر کہا جاتا ہے کہ ثنااللہ زہری اسٹیج پر نہ آئیں، وجہ پوچھنے پر کہا گیا کہ اس سے اختر مینگل ناراض ہوجائیں گے اور یہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک واقعے میں تو انتہا ہوگئی، ہم نے مریم نواز کے کہنے پر خواتین ورکرز کا کنونشن منعقد کیا لیکن ان کی اخلاقی تربیت یہ ہے انہوں نے خواتین ورکرز سے ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کیا اور جلسے سے خطاب کے فوری بعد چلی گئیں۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ وہ وجوہات تھیں جن کی بنا پر میں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا، معذرت کی جاتی تو شاید گنجائش ہوسکتی تھی لیکن اس وقت تو حد ہوگئی جب میں نے نواز شریف کی وہ تقریر سنی جس میں انہوں نے پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو قرار دیا اور افواج پاکستان کے جونیئر رینکس کے افسران و جوانوں سے اپیل کی وہ آرمی چیف کے وہ فیصلے مانیں جو آئینی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی تشریح تو سپریم کورٹ کرتی ہے جو 20 سال میں پرویز مشرف کے مارشل لا کا فیصلہ نہیں کرسکی، ایسا کرنا فوج میں بغاوت کا بیج بونا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی فوج کی وجہ سے بلوچستان میں امن آیا ہے، فوج کے بغیر ملک کچھ نہیں ہے، میں جو کچھ بھی ہوں پاکستانی فوج کی وجہ سے ہوں، میں کبھی سوچ نہیں سکتا کہ پاک فوج کے خلاف باتیں کرنے والے گروہ کے ساتھ رہوں، میں آرمی چیف کی بےعزتی برداشت نہیں کر سکتا۔

ڈسنا نواز شریف کی فطرت میں شامل ہے، ثنااللہ زہری

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری نے بھی جلسے سے خطاب میں پارٹی چھوڑنے اور مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی بےوفائی کی وجہ سے سب انہیں چھوڑ کر چلے گئے، میر حاصل خان مرحوم ہمارے ساتھ تھے لیکن بعد میں وہ نیشنل پارٹی میں چلے گئے، میں نے اس وقت کہا کہ نواز شریف بلوچستان میں اپنی جماعت کی حکومت نہیں بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج سے نواز شریف کی جس حد تک مخالفت ہوسکے گی کریں گے، آج سے نواز شریف سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور ان کا اصل روپ گلی گلی گھر گھر دکھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ ڈسنا نواز شریف کی فطرت میں شامل ہے، انہوں نے اپنے محسنوں کو بھی نہیں چھوڑا، ضیاالحق کا بیٹا بھی نواز شریف کی بے وفائی کے قصے سناتا ہے۔

ثنااللہ زہری نے کہا کہ نواز شریف آپ نے ہم سے بےوفائی کی، آپ نے باعزت آدمیوں کو بےعزت کرانے کی کوشش کی، لیڈر ایسے نہیں ہوتے جو بھگوڑے بن کر باہر بیٹھ جائیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024