ٹرمپ کے متنازع بیانات: امریکا میں صدارتی انتخاب مضحکہ خیز ہے، سپریم لیڈر
ایران کے سپریم لیڈر نے امریکی ووٹرز پر تنقید سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کو مزاق قرار دے دیا۔
غیرملکی خبررساں ادارے 'اے پی' کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ٹیلی وژن خطاب میں امریکا میں صدراتی انتخاب کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کی ووٹرز سے متعلق تنقید خود حقائق کے منافی دعویٰ ہے۔
مزیدپڑھیں: ایران پر معاشی دباؤ میں اضافہ: امریکا نے تیل کی صنعت پر نئی پابندیوں کا اعلان کردیا
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کے حوالے سے ایران کے دیرینہ مؤقف کو اختیار کیا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا ٹرمپ کے سیاسی حریف اور صدارتی امیدوار جوبائیڈن، مگر کوئی بھی ان کے ملک سے بڑھ کر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی معیشت کو کچلنے کے لیے اور تہران کو اپنا خام تیل کھلے عام فروخت کرنے سے روکنے کے لیے آئندہ 4 برس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہمات دیکھی جاسکیں گی۔
دوسری جانب جوبائیڈن، جو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ دنیا کی دوسری طاقتوں کے ساتھ تہران کے 2015 کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے پر غور کریں گے اور مشکلات میں گھرے ہوئے ایران کو ممکنہ رعایت یا ریلیف فراہم کریں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ ان کی اپنی حالت کو دیکھیں تو اس سے لطف اندوز ہوں گے کہ موجودہ صدر جنہوں نے انتخاب کرائے ہے وہ خود کہتے ہیں کہ یہ امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ دھاندلی زدہ انتخاب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے ایران کے جوہری سائنسدانوں پر پابندی کا اعلان کردیا
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ 'امریکی انتخاب میں دھاندلی سے متعلق بیان کس نے دیا؟ یہ بیان امریکی صدر نے دیا جو انتخاب کرارہے ہیں جبکہ ان کے سیاسی حریف کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتخاب میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کریں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ 'انتخاب کے نتائج ہمارا مسئلہ نہیں ہیں مطلب یہ کہ وہ ہم پر اثر انداز نہیں ہوں گے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہماری پالیسی صاف اور واضح ہے اور لوگوں کے آنے اور جانے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا'۔
ایران کے سپریم لیڈر نے امریکا کے بارے میں کہا کہ 'اس طرح کی حکومت زیادہ دن نہیں چل سکے گی، اس سے ظاہر ہے کہ جب کوئی حکومت اس مقام تک پہنچے گی تو وہ زیادہ دن قائم نہیں رہے گی اور تباہ ہوجائے گی'۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
مزیدپڑھیں: امریکا کا خطے میں بھارت کو اہمیت دینے کا عمل خامیوں پر مبنی ہے، وزیراعظم
امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی میں وقت مزید اضافہ ہوا جب سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے گئے تھے جس کے بعد تیل برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو نے اپنی پیداوار روک دی تھی۔
سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد امریکا اور سعودی عرب دونوں نے ایران کو اس کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا تھا تاہم ایران نے ان بیانات کو جنگ کے لیے ایک بہانہ قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ایران جنگ کے لیے تیار ہے اس لیے کسی قسم کی جارحیت سے گریز کیا جائے۔