پرتشدد واقعات کے بعد فرانس کی مسلمان آبادی دباؤ کا شکار
پیرس: ہر حملے کے ساتھ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، پانچ ہفتوں میں تین حملوں کے بعد فرانس میں مسلمان برادری خود کو دباؤ میں محسوس کر رہی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق دو افراد کے سر قلم کیے جانے سمیت انتہا پسندی کے حالیہ واقعات سے قبل ہی مسلم برادری شک کے دائرے میں آ گئی تھی جبکہ دوسری جانب فرانسیسی صدر نے اپنے بیانیے پر قائم رہتے ہوئے ملک میں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات اٹھالیے ہیں۔
مزید پڑھیں: خاکوں سے متعلق میرے الفاظ توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے، فرانسیسی صدر
جمعرات کو نیس کے کیتھولک چرچ میں تین افراد کے قتل سمیت ان تازہ حملوں کے بعد خوف و ہراس میں اضافہ ہوا ہے جس کے بعد فرانس میں موجود مسلمان آبادی خود کو دباؤ اور تناؤ میں محسوس کر رہی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ کہیں نہ کہیں پوری مسلمان برادری کو ان حملوں کا ذمے دار تصور کیا جا رہا ہے۔
کام کی جگہوں پر اسلام کے حوالے سے خصوصی مہارت حاصل کرنے والے ماہر عمرانیات ہشام بنیسا نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے لیے پریشان کن ہے، صرف ان کے حلقہ احباب میں موجود کچھ مسلمانوں نے فرانس چھوڑنے پر غور شروع کردیا ہے، یہ صورتحال انتہائی تناؤ اور خوف کی حامل ہے۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے ملک فرانس میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے، البتہ 50 لاکھ مسلمان آبادی والے اس ملک میں مسلمانوں کو ان کے آبائی ملک کے تناظر میں دیکھا جا تا ہے جس کی وجہ سے انہیں عمومی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سکولر اقدار کے حامل فرانس میں آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں جس کے تحت ہر کوئی اپنے مذہب کے حوالے سے آزاد ہے البتہ حالیہ عرصے کے دوران حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر لگام ڈالنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں 1905 میں بنائے گئے سیکولر قانون میں ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فرانسیسیوں پر حملے کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا، مہاتیر محمد
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے حالیہ اسلام مخالف بیان اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا خاکہ بنانے والے شخص کا دفاع کیے جانے پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور اکثر ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ عرصے میں فرانس میں آزادی اظہار رائے کے غلط استعمال کے نتیجے میں پرتشدد واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنانے والے شخص سیمیول ہیٹی پر ان کے اسکول کے باہر 16 اکتوبر کو حملہ کیا گیا تھا۔
تیونس کے ایک نوجوان نے نیس میں جمعرات کو چرچ میں ایک خاتون سمیت تین افراد کو قتل کردیا تھا اور ان پرتشدد واقعات کا آغاز 25ستمبر کو ہوا تھا جب چارلی ہیبڈو کے سابق دفتر کے باہر ایک شخص نے دو افراد کو حملہ کر کے زخمی کردیا تھا۔
اخبار کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد جنوری 2015 میں حملہ آوروں نے وہاں 12 افراد کو قتل کردیا تھا اور ملزمان کا ٹرائل ابھی جاری ہے۔
مزید پڑھیں: آزادی اظہار رائے کسی حدود کے بغیر نہیں ہوسکتی، جسٹن ٹروڈو
میکرون اپنے ملک میں اسلام کو ایک نئی شکل دینا چاہتے ہیں جس کے تحت مساجد میں امامت کرنے والوں کو تربیت فراہم کی جائے گی جبکہ ملک کے سیکولر خدوخال میں بھی کچھ تبدیلیوں کا امکان ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ فرانس میں اس طرح کا تناؤ سے بھرپور ماحول ہے بلکہ 2004 میں بھی ملک میں اسلام مخالف ایک لہر دیکھی گئی تھی جب کلاس میں خواتین کے سر پر اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی جبکہ 2010 میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
ملک میں اسلام بتدریج پھیلا جس کے بعد مساجد اور مسلمانوں کے اسکولوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔
فرانس میں مسلمان ابتدائی طور پر جنگ عظیم دوئم کے بعد روزگار کے حصول میں 1970 کی دہائی میں آئے اور پھر مختلف نوکریوں میں اپنی مہارت کی بدولت فرانسیسی معاشرے کا لازمی جزو بن گئے اور ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنیوں نے انہیں سہولیات بھی فراہم کیں جیسے کارساز کمپنی رینالٹ نے مسلمان عملے کے لیے نماز کے کمرے کا انتظام کیا۔
بنیسا نے کہا کہ اب نجانے اس معاشرے کو ایسا کیا ہو گیا ہے کہ جب ایک پردہ دار خاتون کسی کمپنی میں آتی ہے تو بغاوت کی بو آنے لگتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ ملک میں معاشرت کی بہتری کے لیے ہمیں لازمی طور پر اہم اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ تمام مذاہب کے لوگ خود کو یکساں محفوظ تصور کر سکیں۔