امریکا میں خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کا تیزی سے بڑھتا رجحان
امریکا کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے مساوات اور اعلیٰ روایات کے فروغ کی سرزمین تصور کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اگر امریکی آئین کا جائزہ لیا جائے تو اس میں صنفی اعتبار سے خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں مکمل اور مردوں کے مساوی حقوق دینے کی ضمانت دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔
خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے جانے سے متعلق مختلف ادوار میں قانون سازی بھی کی جاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک قانون 1972ء میں پاس ہوا تھا جسے ERA یعنی Equal Right amendment کا نام دیا گیا۔ اس قانون کے تحت تمام امریکی شہریوں کو جنسی تفریق کے بغیر تعلیم، ملازمت اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں یکساں مواقعوں اور حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
حقوقِ نسواں کی دیگر عالمگیر تحریکوں کی طرح یہ بل بھی 17ویں صدی میں سنیکا فالز کے مقام پر خواتین کی جانب سے پبلک فورم پر اپنے حقوق کے لیے پیش کردہ قرارداد Declaration of sentiments سے متاثرہ ایک قانون نظر آتا ہے۔ ایک ایسا قانون جو حقوقِ نسواں کے لیے چلائی گئی تحریکوں کے نتیجے میں خواتین کے لیے مزید سہولیات اور معاشرے میں یکساں حقوق کی ضمانت کے طور پر پاس کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ دنیا بھر اور خصوصاً امریکا میں جب بھی حقوقِ نسواں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو اس بل کا حوالہ ضرور آتا ہے، لیکن مساوی حقوق سے متعلق اس قانون پر عملی اقدامات اب ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔
خواتین کے حقوق کے حوالے سے اب بہت سے ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا واقعی امریکا میں خواتین کے مساوی حقوق کے نظریے کو عملی طور پر اختیار کیا گیا ہے؟ سرکاری سطح پر امریکا خواہ کچھ بھی کہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں امریکا سے آنے والی چند رپورٹس اس امریکی قانون پر عمدرآمد اور بلند بانگ دعوؤں کے برعکس متضاد اور منفی تاثر دیتی نظر آرہی ہیں۔
حال ہی میں رجرز یونیورسٹی کے کلیہ قانون سے وابستہ 5 خواتین پروفیسرز نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے یہ استغاثہ دائر کیا ہے کہ انہیں اپنے ساتھی مرد پروفیسرز کے مقابلے میں یکساں تعلیم، صلاحیت اور تجربہ ہونے کے باوجود دیا جانے والا مشاہرہ کئی ہزار ڈالرز کے فرق سے کم ہے۔ ان خواتین اساتذہ نے اس فرق کو صنفی امتیاز کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا اور انصاف کی استدعا کی ہے۔
واضح رہے کہ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ کرنے والی یہ خواتین انتہائی معروف، تجربہ کار اور قابل پروفیسرز ہیں جن کے سیکڑوں مقالے شائع ہوچکے ہیں جبکہ 2 خواتین کئی کتابوں کی مصنفین بھی ہیں۔
رجز یونیورسٹی ایک قدیم ادارہ ہے۔ یہ 1766ء میں قائم ہوا تھا اور قیام کے وقت اس کا نام کوئنز کالج تھا۔ 1825ء میں یہ نجی تعلیمی ادارہ امریکی ریاست نیو جرسی کے تحت رجز یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔ اس جامعہ کا کلیہ قانون حکومتی انتظام کے تحت چلنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اور یہاں 1200 کے قریب طلبا و طالبات حصولِ علم میں مصروف ہیں۔ امریکا کی مختلف ریاستوں میں قائم جامعات میں اس وقت شعبہ قانون کی لگ بھگ 201 کلیات کام کر رہی ہیں۔ ان کلیات کا اگر تعلیمی معیار کے اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو جامعہ رجز 41ویں نمبر پر آتی ہے۔
خواتین پروفیسرز کے اس گروپ کی ترجمان پروفیسر نینسی وولف ہیں جو اس مقدمے کے حوالے سے انتہائی متحرک اور فعال نظر آتی ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ہم قانون پڑھاتے ہوئے پہلا سبق یہی دیتے ہیں کہ انصاف اور مساوات کو یقینی بنانا ہم وکلا کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جبکہ گریجویشن کی تقریب میں بھی تمام نئے وکلا اسی بنیادی اصول کی بالادستی کا حلف اٹھاتے ہیں۔ اس تناظر میں آجر کی جانب سے تمام ملازمین کو بغیر امتیاز کے یکساں اجرت کی ادائیگی ان کا حق ہے جبکہ اس سے روگردانی کرنا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل بھی لگ بھگ 50 برس پہلے اسی نوعیت کے ایک قضیے نے جنم لیا تھا جس کی محرک اسی ادارے کی ایک خاتون پروفیسر آنجہانی روتھ بدر گنسبرگ تھیں۔ انہوں نے بھی اسی نوعیت کی ایک شکایت پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جبکہ اس وقت کی یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ان کی تنخواہ میں فوری طور پر اضافہ کرنے کے علاوہ ہرجانہ ادا کرکے اپنی جان چھڑائی تھی۔
کچھ عرصہ قبل اسی ریاست میں واقع پرنسٹن یونیورسٹی نے بھی اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں اپنی خواتین پر مشتمل فیکلٹی کو 12 لاکھ ڈالر کا ہرجانہ دیا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی دیگر جامعات کی خواتین پروفیسرز کی جانب سے بھی متواتر اس نوعیت کی شکایات آرہی ہیں۔ مثلاً حال ہی میں نارتھ مشیگن یونیورسٹی، ڈینور یونیورسٹی اور ایرا زونا یونیورسٹی کی خواتین پروفیسرز نے اسی نوعیت کے مقدمات دائر کیے ہیں۔
خواتین کے ساتھ عدم مساوات کا معاملہ دنیا بھر میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ بھی ہر 5 سال بعد عالمی کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے۔ 1995ء میں ہونے والی بیجنگ کانفرنس کے اختتام پر ہونے والے اعلانِ بیجنگ میں بیشتر قوانین سے متعلق مغرب اور مشرق کے لبرل اور روایتی اندازِ فکر میں واضح تفاوت اور نقطہ نظر کے فرق کے باوجود صنفی مساوات کو عالمی قانون کا درجہ دیا گیا۔
اعلانِ بیجنگ پر پاکستان سمیت 189 ممالک نے دستخط کیے، جبکہ اسقاطِ حمل کے مسئلے پر ویٹیکن اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کی جانب سے اختلافی نوٹ لکھے گئے۔ اس کانفرنس کے بعد تواتر سے بیجنگ پلس 5، بیجنگ پلس 10، بیجنگ پلس 15 اور 20 کا انعقاد ہوا۔ رواں سال جون میں کورونا وائرس کے باعث بیجنگ 25 کا انعقاد virtual کیا گیا۔
ان تمام کانفرنسوں میں خواتین کے لیے مساوی حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی بات ہوئی تھی، لیکن متواتر کوششوں کے باوجود بھی یہ تمام کاوشیں کانفرنس کے منتظمین کے وضع کردہ معیار سے کوسوں دُور نظر آتی ہیں۔ چند طبقے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان قوانین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان قوانین پر عملدرآمد ممکن نہیں۔
ان طبقات کا خیال یہ ہے کہ ان قوانین کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ محض ایک Myth ہیں۔ بیجنگ پیکٹ کے حوالے سے عملدرآمد کی پیش رفت کے جائزہ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکا میں خواتین اور مردوں کے درمیان عدم مساوات عروج پر ہیں۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ مشرقی اور ایشیائی ممالک پر عدم مساوات کے الزامات لگانے اور انسانی حقوق کے سرخیل امریکا میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا یہ حال ہے کہ جس کام کے لیے مردوں کو ایک ڈالر دیے جاتے ہیں وہی کام خواتین سے 77 سینٹ میں لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں امریکا میں واضح طور پر Fair Standard Labor Act کے نام سے باقاعدہ قانون موجود ہے، جو دراصل مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں معاوضے کا قانون ہے۔
ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ امریکا میں اس سلسلے میں اصلاح احوال کی کوششیں نہ ہوئی ہوں لیکن واضح رہے کہ اس حوالے سے ریپبلکن پارٹی کا ماضی کچھ زیادہ روشن نہیں۔ 2007ء میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک بل پیش کیا گیا جس کا نام Paycheck Fairness Act ہے۔ یہ بل 2008ء میں کانگریس کے ایوانِ زیریں میں پاس بھی ہوگیا تھا لیکن ریپبلکن پارٹی کے 178 اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ بعد میں جب یہ بل منظوری کے لیے 2008ء میں سینیٹ میں پیش ہوا تو یہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت تھی، لیکن غیر ضروری بحث و مباحثہ اور لیت و لعل کے نتیجے میں یہ بل تعطل کا شکار ہوتا چلا گیا اور اس وقت تک اسے التوا میں رکھا گیا جب تک وسط مدتی انتخابات نہ ہوگئے۔
انتخابات کے بعد سینیٹ میں ریپبلکنز کی اکثریت تھی، چنانچہ سینیٹ کے قائدِ ایوان نے اسے بحث کے لیے پیش کیا تو ریپبلکن اراکین نے اس بل کو تاخیری حربوں کے ذریعے التوا کا شکار کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کی خواتین اراکین نے بھی اس معاملے پر خواتین کے مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس پر پارٹی کا ساتھ دیا، لیکن گزشتہ برس یعنی 2019 میں یہ بل أأأأ۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ اس بل کی منظوری کے لیے صرف 7 ریپبلکن ممبران نے ڈیموکریٹ پارٹی کا ساتھ دیا تھا۔
اس حوالے سے ایک اہم ترین بات یہ کہ امریکا جسے آزاد دنیا میں مساوات کا علمبردار اور سرخیل بناکر پیش کیا جاتا ہے اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں ایک مختلف اور منفی تاثر کے حامل ملک کی حیثیت میں اپنا تاثر تیزی سے کھو رہا ہے۔