امریکا کا خطے میں بھارت کو اہمیت دینے کا عمل خامیوں پر مبنی ہے، وزیراعظم
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت چین، بنگلادیش، سری لنکا اور پاکستان کے لیے خطرہ ہے جبکہ امریکا کا خطے میں نئی دہلی کو اہمیت دینے کا عمل خامیوں پر مبنی ہے۔
جرمن جریدے ’دیر اسپیگل‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بھارت نازی ازم سے متاثر فسطائی ملک بن چکا ہے، بھارتی وزیر اعظم کی جماعت کا نظریہ آر ایس ایس کا ہے اور جماعت میں کھلے عام ہٹلر کو سراہا جاتا ہے جبکہ خطے میں کشیدگی ہے جو کسی وقت بھڑک سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت چین، بنگلادیش، سری لنکا اور پاکستان کے لیے خطرہ ہے، بی جے پی بھارت میں مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتی ہے، ہم امریکا سے بھارت کے تناظر میں مساوی رویہ دیکھنا چاہتے ہیں اور نیا صدر جو بھی ہوا امریکا کو دونوں ملکوں سے یکساں رویہ رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا، چین کی وجہ سے بھارت کو اہمیت دیتا ہے لیکن خطے میں بھارت کو اہمیت دینے کا امریکی طرز عمل خامیوں پر مبنی ہے، جبکہ ہمیں کشمیر پر امریکا سے دونوں ملکوں کے ساتھ یکساں پالیسی کی توقع ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت میں سیکیولرازم کی جگہ ہندو راشٹریہ نے لی ہے، وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب
’جو بائیڈن رائے عامہ میں مقبول نظر آرہے ہیں‘
عمران خان نے امریکا کے اگلے صدر کے حوالے سے سوال پر کہا کہ جو بائیڈن رائے عامہ میں مقبول نظر آرہے ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ روایتی سیاستدان نہیں اور وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہم بھی کافی غیر روایتی رہے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی طرح کے ہیں، میں نے کئی بار مختلف سوچ اپنائی اور نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، افغانستان میں کسے اقتدار ملے پاکستان کا کوئی فیوریٹ نہیں لیکن کابل حکومت، بھارت کو وہاں سے پاکستان کے خلاف سرگرمی کی اجازت نہ دے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادگی میں افغان مہاجرین عنصر مددگار رہا، افغانستان کے بعد کوئی ملک وہاں امن چاہتا ہے تو وہ پاکستان ہی ہے، گلبدین حکمت یار نے افغان الیکشن میں حصہ لیا اور وہ اپنے ملک کا آئین تسلیم کرتے ہیں، جبکہ میں نے گلبدین حکمت یار سے ملاقات سے قبل عبداللہ عبداللہ سے بات چیت کی۔
’پاکستان میں آزادی اظہار رائے مغربی ممالک سے زیادہ ہے‘
وزیر اعظم نے کہا کہ انقلاب ایران کے بعد مغرب نے مسلمان ممالک میں تفریق پیدا کی جبکہ مسلم ممالک کی آزاد خیال، بنیاد پرستی کی درجہ بندی مصنوعی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے مغربی ممالک سے زیادہ ہے، میں نے آزادی کے لفظ کا استعمال بہت محتاط انداز میں کرتا ہوں، میں نے اپنی زندگی کی دو دہائیاں برطانیہ میں گزاری، وہاں پر بہتان سے متعلق بہت زیادہ مضبوط قوانین ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیر اعظم مجھ پر بہت سارے بہتان لگے، انصاف کے لیے عدالت بھی گیا تاہم انصاف نہ مل سکا۔
یہ بھی پڑھیں: مغرب کو سمجھانا پڑے گا کہ توہین رسالت اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے، وزیراعظم
’پاکستان، اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا‘
مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جب اقتدار میں آئی تو سب سے پہلے میری حکومت یمن میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھی، اس کے لیے ایران سے بات بھی کی جبکہ سعودی عرب سے محمد بن سلمان سے بھی رابطہ کیا، تاہم ہم کسی پر مذاکرات کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتے۔
انہوں نے کہا کہ تہران اور ریاض کے درمیان جنگ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوگی، خاص طور پر غریب ممالک کے لیے جنگ بہت خوفناک ہوگی، تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں گی جس سے کئی ممالک کو مسائل در پیش ہوں گے۔
مختلف خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہے کیونکہ یہ ممالک اپنی عوام کا سوچتے ہیں تاہم پاکستان، اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا اور اس معاملے پر ہمارا موقف بڑا واضح ہے کہ ہم اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کر سکتے جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔
’نائن الیون میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا‘
نائن الیون سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا اور نائن الیون کے بعد ہمیں اپنی فوج کو جنگ میں نہیں جھونکنا چاہیے تھا، نائن الیون کے بعد امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا اور پرویز مشرف دباؤ برداشت نہ کرسکے، دوسروں کی جنگ میں شامل ہونے کی میں نے شروع دن سے مخالفت کی۔
ملک میں کورونا وائرس سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کیا اور ملک کی حکومت وبا کا مکمل ادراک رکھتی ہے۔