• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

قومی ادارہ برائے امراض قلب پر نیب کا چھاپہ، مالی ریکارڈ ضبط

شائع October 30, 2020 اپ ڈیٹ November 1, 2020
ذرائع نے کہا کہ نیب افسران ادارے کی عمارت میں دوپہر کے وقت داخل ہوئے جس کے بعد انہوں نے مختلف انتظامی حصوں کا دورہ کیا — فائل فوٹو / این آئی سی وی ڈی ویب 
سائٹ
ذرائع نے کہا کہ نیب افسران ادارے کی عمارت میں دوپہر کے وقت داخل ہوئے جس کے بعد انہوں نے مختلف انتظامی حصوں کا دورہ کیا — فائل فوٹو / این آئی سی وی ڈی ویب سائٹ

کراچی: قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) پر چھاپہ مار کر طبی افسران سے پوچھ گچھ کی اور مالی ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سخت ردعمل کو دعوت دیتے ہوئے انسداد کرپشن کے ادارے نے ایکشن لیتے ہوئے سب سے بڑے خصوصی سرکاری ہسپتال سے دستاویزات کو جمع کیا اور 5 گھنٹوں سے زائد تفتیش کے بعد بھی شکوک و شہبات کا اظہار کیا۔

اگرچہ نیب کی جانب سے کوئی بھی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا، تاہم اس پیش رفت سے آگاہ ذرائع کا کہنا تھا کہ نیب افسران ادارے کی عمارت میں دوپہر کے وقت داخل ہوئے جس کے بعد انہوں نے مختلف انتظامی حصوں کا دورہ کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیب افسران نے این آئی سی وی ڈی کے سینئر انتظامی عہدیداران کو بلا کر ان سے ادارے کے مختلف مالی معاملات کے بارے میں سوالات پوچھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نوٹی فکیشن جاری

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے نیب افسران کو دوسری مختلف سرگرمیوں میں بھی دیکھا اور بیورو کی ٹیم 5 گھنٹوں سے زیادہ وہاں موجود رہی۔

بیورو کے افسران نے مالی معاملات اور ہیومن ریسورز (انسانی وسائل) سے متعلق حصوں کو چیک کیا، اس سے قبل انہوں نے قومی ادارہ برائے امراض قلب کے افسران سے سوالات کرکے ان کے جوابات نوٹ کیے تھے۔

ان سے جب سوال کیا گیا کہ نیب نے چھاپہ مارنے کے بعد کوئی دستاویزات اپنی تحویل میں لیں تو انہوں نے اس کی تائید کی۔

بیورو نے دو سال قبل کرپشن الزامات کے بعد این آئی سی وی ڈی کے خلاف نیشنل اکاؤنٹبلٹی آرڈیننس 1999 کے سیکشن 19 اور 27 کے تحت تفتیش کا آغاز کیا تھا۔

تحقیقات کے دوران ایک خط سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے پاس اس ضمن میں معلومات/ یا شواہد موجود ہیں۔

بیورو نے ستمبر 2018 میں تفتیش کا آغاز کیا تھا اور اس نے این آئی سی وی ڈی کی ساختی تشکیل سے متعلق ہر طرح کے اصل اور تصدیق شدہ کاپیوں کا تمام ریکارڈ حاصل کرلیا تھا، جس میں گزشتہ 10 سال کے دوران ہونے والی بھرتیوں، ترقیوں، انتظامی عہدوں سے متعلق ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات شامل تھی۔

مزید پڑھیں: مجوزہ نیب قوانین: نجی شہری احتساب کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہوں گے

ذرائع نے این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو بھیجے گئے خط کی تفصیلات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 'نیب نے گزشتہ 10 سالوں کے درمیان مختلف گریڈز میں کی جانے والی بھرتیوں، ان کی ادائیگیوں کا اسٹرکچر، سالانہ بجٹ سمیت اس عرصے میں ہونے والے تمام اخراجات کے ریکارڈز کا تفصیلی جائزہ لیا۔

مزید یہ کہ افسران ادویات، مشینری کی خریداری کے ساتھ ساتھ دیگر اندرونی و بیرونی اور تیسرے فریق کی آڈٹ رپورٹس کی تفصیلات کا بھی جائزہ لیا۔

بعد ازاں این آئی سی وی ڈی نے اعلامیہ جاری کیا کہ جس میں نیب کے چھاپے کو 'بلاجواز' قراد دیا اور اسے ادارے کے ڈاکٹرز اور دیگر عملے میں تناؤ کا سبب بتایا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ 'نیب کا ایسے ادارے پر چھاپہ مارنا جو مفت علاج کی سہولت فراہم کرتا ہے بلا جواز ہے، نیب نے پیشگی معلومات کے لیے ادارے کے ساتھ کوئی ریکارڈ شیئر نہیں کیا، جب بھی نیب کی جانب سے تفصیلات مانگی جاتی ہیں ان کے ساتھ تعاون کیا جاتا ہے، اس چھاپے کے باعث ادارے کے ڈاکٹرز اور دیگر عملہ تناؤ کا شکار ہوا جبکہ اس سے مریض بھی بے آرام ہوئے۔

اعلامیے میں سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی صوبے میں صحت سے متعلق ریفارمز پروگرام کو 'کامیابی کی کہانی' سے جوڑتے ہوئے کہا گیا کہ قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب ملک بھر میں ہزاروں دل کے مریضوں کو مفت علاج کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔

دوسری جانب سیاسی حریف این آئی سی وی ڈی کے مالی وسائل اور ایگزیکٹو عملے کی بھاری تنخواہوں کی ادائیگی پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سنجیدہ الزامات

سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی رہنما حلیم عادل شیخ اپوزیشن جماعتوں کے ان رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے قومی ادارہ برائے امراض قلب کے مالی معاملات پر سنگین الزامات لگائے۔

حلیم عادل شیخ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'ایک ریٹائرڈ شخص کو سیاسی بنیاد پر ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا جو باقاعدگی سے دفتر نہ آنے کے باوجود ایک ماہ کی 65 لاکھ تنخواہ وصول کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی اس وقت 16 ارب روپے کا مقروض ہے جبکہ ہسپتال میں ہونے والی ہر اینجیوپلاسٹی کی مد میں 40 ہزار روپے جاری کیے گئے، جسے بعد ازاں ای ڈی، این آئی سی وی ڈی اور وہاں کے عہدیداروں میں تقسیم کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے الگ کردیا، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ رقم عوام کے ٹیکس سے ملنے والے رقم تھی، جسے غیر منصفانہ اور غیر قانونی طریقے سے خرچ کیا جا رہا تھا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی ویلفیئر ٹرسٹ بنایا گیا جو کہ غیر قانونی ہے، کیونکہ کسی بھی سرکاری ہسپتال یا ادارے کو اس طرح کا ویلفیئر ٹرسٹ قائم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ این آئی سی وی ڈی ٹرسٹ قائم تو کیا گیا مگر اس کا کوئی بھی احتساب نہیں کیا جا رہا۔

پیپلز پارٹی کی چھاپے کی مذمت

نیب کے اس عمل پر سندھ کی حکمران جماعت کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور اسے وفاق کی جانب سے حکومت سندھ کے بہترین سرکاری ہسپتال کو ’ہائی جیک‘ کرنے کی کوشش قرار دیا گیا۔

سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’این آئی سی وی ڈی پاکستان کا ایک بہترین سرکاری ہسپتال ہے جسے اب ہدف بنایا جارہا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ بات حیران کن ہے کہ ہسپتال پر نیب نے چھاپہ مارا حالانکہ ہسپتالوں پر جنگوں کے دوران بھی حملہ نہیں کی جاتا، کیا حکومت مکمل ہوش کھو بیٹھی ہے؟ جب انتظامیہ تمام معلومات فراہم کر رہی تھی تو نیب کے چھاپے کا کیا مقصد تھا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نیب گردی‘ لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہے کیونکہ چھاپے کے بعد ایمرجنسی اور او پی ڈی سیکشنز بند کر دیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024