صحافی علی عمران سید کے اغوا کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ
اسلام آباد: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، پاکستان بار کونسل اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے کراچی سے تعلق رکھنے والے جیو نیوز کے صحافی علی عمران سید کے اغوا کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ تحقیقاتی ٹیم کو مسترد کردیا ہے۔
تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ ٹیم ریاستی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں پر مشتمل ہے جو ماضی کی اسی طرح کی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر 'مجرم' ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی: جیو نیوز کے ’لاپتا‘ رپورٹر علی عمران سید گھر پہنچ گئے
گزشتہ جمعے کو علی عمران سید تقریباً شام 7 سے 8 بجے کے درمان بیکری سے کچھ سامان خریدنے کے لیے گلستان جوہر میں اپنے گھر سے نکلے لیکن واپس نہیں آئے تھے جبکہ اگلے دن وہ بحفاظت واپس آئے تھے۔
ایک مشترکہ بیان میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل حارث خالق، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی اور پی ایف یو جے کے صدر اور سیکریٹری جنرل شہزادہ ذوالفقار اور ناصر زیدی نے بالترتیب کہا کہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ علی عمران سید کے لاپتا ہونے سے متعلق آزاد اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کے تحت جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ جس ایف آئی اے کو علی عمران سید کے اغوا کی تحقیقات کا کام سونپا گیا ہے اس نے گزشتہ ماہ 49 صحافیوں کے خلاف من گھڑت مقدمات درج کیے، جن میں سے کچھ کو صحافی برادری کے خلاف بے بنیاد مقدمات کی تحقیقات کے لیے طلب کیا گیا، ایسی اتھارٹی منصفانہ اور شفاف تحقیقات کو کس طرح یقینی بنا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ
انہوں نے صحافیوں کو لاحق دھمکیوں میں اضافے کے پیش نظر وزیر اعظم سے مقدمے کو سپریم کورٹ میں بھیجنے پر زور دیتے ہوئے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔
تینوں اداروں نے کہا کہ وہ انسانی حقوق، صحافت کی آزادی اور آزادی اظہار رائے کی حمایت کرتے رہیں گے جو ان کے بقول موجودہ حکومت کے دور میں محدود ہو گئی ہیں۔