امریکا کو بھارت کے ساتھ ہمارے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، چین
چینی سفارت خانے نے بھارت کے دورے پر امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں قائم چینی سفارت خانے کی جانب سے پومپیو کے بیان پر کہا گیا کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ چاہتے ہیں کہ خطے میں چین کے دوسرے ممالک سے تعلقات میں کشیدہ ہوں۔
بیان میں کہا گیا کہ ‘امریکا کی سرد جنگ والی ذہنیت اور نظریاتی تقسیم ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہوگئی ہے لیکن چین اس کی بھر پور مخالفت کرتا ہے’۔
مزید پڑھیں: بھارت، امریکا کا 'سیٹلائٹ ڈیٹا' شیئرنگ کے عسکری معاہدے پر دستخط
بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے چین کے سفارت خانے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘دونوں ممالک سرحد میں کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی اور عسکری راستوں کے ذریعے مذاکرات کر رہے ہیں’۔
رد عمل میں کہا گیا کہ ‘چین اور بھارت میں اپنے اختلافات کو باقاعدگی کے ساتھ ختم کرنے کے لیے دانش مندی اور صلاحیت ہے اور کسی تیسرے فریق کے لیے مداخلت کی کوئی جگہ نہیں ہے’۔
اس سے قبل مائیک پومپیو نے بھارت کے سرکاری دورے کے موقع پر نئی دہلی میں چین مخالف بیان میں کہا تھا کہ ‘ہمارے قائدین اور شہری پر واضح رہا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) جمہوریت دوست، قانون کی عمل داری پر یقین نہیں رکھتی’۔
بھارت کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے پر دستخط کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ سی سی پی بھارت کو آزاد اور خوشحال دیکھنے کی خواہاں نہیں ہے۔
یاد رہے کہ 27 اکتوبر کو بھارت اور امریکا کے درمیان حساس نوعیت کے سیٹلائٹ ڈیٹا اور نقشے سے متعلق معلومات شیئر کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔
مائیک پومپیو نے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کے ہمراہ نئی دہلی پہنچ کر اپنے بھارتی ہم منصب سے بات چیت کے بعد کہا تھا کہ دونوں ممالک کی سلامتی اور آزادی کو چین سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامَنیم جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ بات چیت کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ بڑی بڑی چیزیں رونما ہو رہی ہیں اور ہماری جمہوری ریاستیں شہریوں اور آزاد دنیا کے بہتر حفاظت کے لیے ساتھ کھڑی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت، امریکا کی سیٹلائٹ ڈیٹا پر عسکری معاہدے کی تیاری
مارک ایسپر نے نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ 'دی بیسک ایکسچینج اینڈ کارپوریشن ایگریمنٹ' ایک سنگ میل ہے جو دونوں ممالک کے درمیان عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور تعاون کا سبب بنے گا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ امریکا نے بھارت کو مزید لڑاکا طیارے اور ڈرون فروخت کرنے کا ارادہ کیا ہے اور مذکورہ معاہدے سے بھارت کو ٹوپوگرافیکل، سمندری اور ایروناٹیکل ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوگی جو میزائلوں اور مسلح ڈرون کو نشانہ بنانے کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔
بعد ازاں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے بیجنگ میں نیوز بریفنگ میں اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ 'ہم مائیک پومپیو سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کریں اور 'چین کو خطرہ' قرار دینے کی تکرار بند کریں۔
خیال رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تعلقات رواں برس متعدد معاملات پر تنزلی کا شکار رہے جس میں تجارت، ٹیکنالوجی، کورونا وائرس اور چین کا جنوبی چینی سمندر پر دعویٰ اور ہانگ کانگ میں سیکیورٹی قانون نافذ کرنا شامل ہے۔
امریکا نے دانشورانہ املاک اور معلومات کے تحفظ کے لیے چین کو ہیوسٹن میں موجود قونصلیٹ تین دن میں بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں امریکا کی جانب سے الزام لگایا تھا کہ سان فرانسکو میں واقع چین کے قونصل خانے میں ایک چینی سائنس دان نے پناہ لی ہے جو ویزا فراڈ میں ملوث ہے اور اس کے فوج سے خفیہ تعلقات ہیں۔
جس کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ملک میں چینی اسکالرز کی نقل و حرکت کو محدود، انہیں ہراساں یا ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بہانے استعمال کر رہے ہیں۔