طبی ماہر نے تجربے کیلئے خود کو جان بوجھ کر کورونا کا شکار کردیا
دنیا بھر میں لوگ نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے بچنے کے لیے کوششیں اور مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کررہے ہیں۔
اس لیے یقین کرنا مشکل ہوگا مگر ایک طبی ماہر نے جان بوجھ کر خود کو کورونا وائرس سے دوسری بار متاثر کیا۔
جی ہاں روس کے خطے سائبیریا سے تعلق رکھنے والے وائرسز کے ایک ماہر نے ایک تجربے کے طور پر دوسری بار خود کو کورونا وائرس سے متاثر کیا، تاکہ اس بیماری کے حوالے سے مدافعت کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکے۔
الیگزینڈر سیفرنوف نامی وائرلوجسٹ نے بتایا کہ پہلی بار بیمار ہونے کے بعد اس بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز 3 ماہ بعد ختم ہوگئیں، جبکہ دوسری بار بیماری پر اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
نووسیبیرسک سے تعلق رکھنے والے 68 سالہ ماہر نے ایک مقامی اخبار کو بتایا کہ وہ پہلی بار مارچ میں نئے کورونا وائرس سے متاثر ہوا اور ایسا ممکنہ طور پر ماسکو میں خریداری کے دوران ہوا۔
اس وقت بخار، سینے میں تکلیف اور سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا ہوا جبکہ بعد ازاں نمونیا کی تشخیص ہوئی، مگر اینٹی باڈی ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہوا۔
بعد ازاں وہ اور انسٹیٹوٹ آف کلینیکل اینڈ ایکسپیرمنٹل میڈیسین کی ٹیم نے بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کے رویوں کو ریکارڈ کرنا شروع عکیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ وقت کے ساتھ ان کی سطح میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔
الیگزینڈر سیفرنوف نے میڈیا کو بتایا 'مشاہدے میں معلوم ہوا کہ اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے گھٹ رہی تھی، بیماری کے بعد تیسرے مہینے کے آخر تک وہ لگ بھگ ختم ہوگئی'۔
اس کے بعد ماہر نے خود کو دوبارہ وائرس سے متاثر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جان سکیں کہ اس صورتحال میں جسم کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے کورونا وائرس کے مریضوں کے ساتھ بغیر ماسک کے وقت گزارا اور 2 ہفتے بعد اپنے ٹیسٹ کرائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ دوباری کووڈ 19 کے شکار ہوئے یا نہیں۔
پہلی بار بیماری کے 6 ماہ بعد الیگزینڈر سیفرنوف میں دوسری بار کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔
دوسری بار بیماری کے دوران ماہر کو تیز بخار، سونگھنے کی حس سے محرومی اور دیگر علامات کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا، جہاں نمونیا کی تشخیص ہوئی۔
الیگزینڈر سیفرنوف نے بتایا 'پہلی بار کے مقابلے اس بار تکلیف پہسے سے بہت زیادہ شدید تھی'۔
اس تجربے میں کئی چیزیں واضح نہیں، جیسے پہلی بار کووڈ 19 کی تشخیص اینٹی باڈیز کے ذریعے ہوئی تھی جبکہ ابھی یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ وہ وائرس کی 2 مختلف اقسام سے متاثر ہوئے یا ایک ہی وائرس تھا۔
کسی مریض میں دوسری بار کووڈ 19 سے متاثر ہونے کی تصدیق ہی اس وقت ہوتی ہے جب اس میں وائرس کی 2 مختلف اقسام کی شناخت ہو۔
مگر روسی ماہر کا کیس ری انفیکشن کے دیگر کیسز کی علامات سے مطابقت رکھتا ہے۔
اب تک کووڈ 19 سے 2 بار متاثر ہونے کے چند ہی کیسز کی تصدیق ہوئی ہے اور ان میں سے بھی اکثریت میں دوسری بار بیماری کی شدت پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنگین تھی۔
نیدرلینڈز میں بھی 89 سالہ خاتون دوسری بیمار ہونے کے بعد انتقال کرگئیں اور یہ ری انفیکشن سے اب تک تصدیق شدہ پہلی موت بھی ہے۔
اسی طرح امریکا میں 25 سالہ نوجوان دوسری بار کووڈ 19 کے باعث ہسپتال پہنچ گیا حالانکہ پہلی بار بیماری کی شدت زیادہ نہیں تھی۔
یہ کیسز وائرس کے خلاف جسم کی مدافعت کے دورانیے کے تعین کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اجتماعی مدافعت کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔
الیگزینڈر سیفرنوف نے بتایا کہ ان کا تجربہ اجتماعی مدافعت کی حکت عملی کے خلاف ایک انتباہ ہے جبکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بیماری کے خلاف موثر ویکسین کے متعدد ڈوز استعمال کرنا ہوں گے۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ وائرس آنے والے کئی برسوں میں ہمارے ساتھ ہوگا۔