ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کو بات کرنے سے روک دیا
سینیٹ کے اجلاس کے دوران ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا اور وزیر اطلاعات شبلی فراز کے درمیان نوک جھونک ہوئی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے وزیر اطلاعات کو مزید بات کرنے سے روک دیا۔
جمعرات کو سینیٹ میں ہونے والے اجلاس کے دوران وزیر اطلاعات نے گفتگو شروع کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسوں اور ان کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا جس پر اجلاس کی سربراہی کرنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے انہیں درمیان میں ٹوکتے ہوئے کہا کہ میں سمجھا تھا آپ کو کوئی اہم بات کرنی ہے لیکن یہ تو ایک عام مباحثے کی بات ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات: ’قوم دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں کے خلاف متحد ہے‘
شبلی فراز نے کہا کہ میں وزیر اطلاعات ہوں اور ہمارا مخالف ملک، ایک بیانیہ چلا رہا ہے میں اس کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، چاہے کوئی بھی مسئلہ ہو لیکن سب سے اہم ایشو ملک ہے، اگر اس پر بات نہیں کرنے دی جائے گی تو کیسے چلے گا۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ سیشن کے بعد بات کریں، پورا سیشن متاثر ہو رہا ہے لیکن شبلی فراز بات کرنے پر زور دیتے رہے اور کہا کہ میں حکومت پاکستان کا ترجمان ہوں لہٰذا میں ایک پالیسی بیان دینا چاہتا ہوں۔
اس موقع پر شبلی فراز نے کہا کہ 'چیئرمین آپ کے لیے جو ایشو اہمیت کے حامل ہیں ان کو ترجیح دینی چاہیے، اگر اس سے کوئی اہم ایشو ہے تو بتائیں، جو ملک کے خلاف بیانیہ چل رہا ہے، اگر اس سے کوئی اہم چیز ہے تو مجھے بتا دیں'۔
اس دوران ایوان کے دونوں جانب موجود اراکین کی جانب سے شور شرابے کا سلسلہ جاری رہا۔
اس مرحلے پر قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہا کہ رول 265 کے تحت بات کرنا چاہتے ہیں، پالیسی بیان ایشو پر ہی ہوتا ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ وزیر جب تک چاہے بات کر سکتے ہیں لیکن ایجنڈا کے بعد کریں، میں انہیں کب منع کر رہا ہوں، ایجنڈے کے بعد بات کر لیں، اس میں مسئلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'حکومت کے جانے سے پہلے تمام مقدمات ختم ہوجائیں گے'
شبلی فراز نے کہا کہ میرے بیان سے ایک اچھا پیغام جائے گا جس پر ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ میں کوئی صحیح یا غلط پیغام نہیں دے رہا، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے ایجنڈا مکمل کرنے دیں، آپ میری بات سنیں۔
اس کے بعد اجلاس کی سربراہی کرنے والے ڈپٹی چیئرمین نے ایجنڈا پڑھ کر سنایا اور اراکین کی چھٹیوں کی درخواستیں منظور کیں۔
اپوزیشن کے رکن عثمان کاکڑ نے بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا جس پر ڈپٹی چیئرمین نے انہیں خبردار کیا کہ وہ ایجنڈا چلنے دیں، میں آپ کو بات کرنے کا موقع فراہم کروں گا۔
قائد ایوان شہزاد وسیم نے شبلی فراز کو گفتگو کا موقع فراہم کرنے کے لیے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایجنڈا ختم ہونے کے بعد کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، یہ اس ایوان کی روایت بن چکی ہے، کوئی سچ سننے کو تیار نہیں، بات ترجیحات کی ہے۔
سلیم مانڈوی والا نے قائد ایوان کو باور کرایا کہ میں وزیر کو ہر حالت میں بولنے دوں گا لیکن اجلاس کے درمیان میں ہرگز نہیں، میں چاہتا ہوں کہ سیشن چلتا رہے۔
مزید پڑھیں: کورونا سے متاثرہ 11 شہروں میں رات 10 بجے کے بعد تجارتی سرگرمیوں پر پابندی
شہزاد سلیم نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو ماحول بنایا جا رہا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر بات کی جائے جس پر ڈپٹی چیئرمین نے پھر کہا کہ قائد ایوان آپ براہ مہربانی ایجنڈا چلنے دیں، آپ مزید تاخیر کرا رہے ہیں۔
شبلی فراز نے سینیٹ کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک اتھارٹی پورے زوروشور سے کام کر رہی ہے لیکن یہاں جو اپوزیشن کے اراکین بیٹھے ہیں انہوں نے باقی اداروں کو تو تہس نہس کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن یہ سی پیک کے ادارے کو بھی سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اور ہم آپ کو اس کی اجازت بالکل نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے سیاسی، خارجہ اور قانونی پہلو ہیں، ایک پاکستان کے عوام اور ایک چین کے عوام کا مؤقف ہے اور اس پر کھل کر بات کروں، جب اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو ہماری خارجہ پالیسی متاثر ہوتی ہے، یہ دشمنوں کو تو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن دوستوں کو تو یہ خفا نہ کریں۔
اس موقع پر رضا ربانی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جون سے اکتوبر تک سی پیک اتھارٹی تک کوئی قانون نہیں ہے، جب قانون نہیں ہے تو یہ اتھارٹی کس طرح کام کر رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اتھارٹی غیرقانونی طور پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر کہہ رہے ہیں کہ چین سے تعلقات کو خراب کرنا چاہ رہا ہوں لیکن آرڈیننس یا قانون تو آپ نے لانا تھا، یہ حکومت کا کام تھا اور جو بل قومی اسمبلی میں کل آیا اور اس میں جو نیب کے قانون کا استثنیٰ دیا جا رہا ہے وہ سراسر امتیازی سلوک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ابھی نندن سے متعلق بیان کو بھارتی میڈیا توڑ مروڑ کر پیش کررہا ہے، ایاز صادق
شبلی فراز نے ان کی گفتگو کے دوران رضا ربانی کو موقع دینے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میری گفتگو کے دوران ہی ان کو فلور دے دیا جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں ایوان، پاکستان اور چین کے عوام کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ سی پیک کے مختلف ڈپارٹمنٹ پلاننگ کمیشن میں کام کر رہے ہیں، ہر جگہ کام ہو رہے ہیں، ہم یہاں ادارے بنانے آئے ہیں جو انہوں نے تباہ کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبے کے بہت دشمن ہیں، ان کے بہت ایجنڈے ہیں، ہمیں ان کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے، ہمیں اس منصوبے کو سیاست سے پاک رکھنا چاہیے اور یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے عوام کے درمیان دوستی اور محبت کی علامت ہو گا۔
انہوں نے پشاور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ انیس سال سے چل رہی ہے، جس اہلیت کے ساتھ اس جنگ کو ختم کیا گیا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی اور افواج پاکستان کا اس میں بہت بڑا کردار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پوری طرح اپنی ذمہ داری سے واقف ہے، یہ جو ایک پی ڈی ایم کی تحریک شروع ہوئی ہے، دشمن کے ایجنڈے پر یہاں ایسی باتیں کی جا رہی ہیں، آپ کو شرم آنی چاہیے۔
وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ ابھی نندن سے متعلق فیصلہ ہم نے فراخ دلی سے کیا، انہوں نے اس کو بھی متنازع بنا دیا، یہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا واقعہ تھا جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے ہماری فتح کو شکست میں بدل دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں اس لیے اپوزیشن نے ناٹک شروع کیے ہیں، ہمیں دشمن کی زبان نہیں بولنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے مفادات کی خاطر انہوں نے ملک کی سیکیورٹی کو داؤ لگا دیا ہے لیکن ہم ان کے رہنماوں کو سیکیورٹی دیں گے کیوں کہ انہوں نے پیسے واپس دینے ہیں۔