صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی، عہدے سے مستعفی ہوں، رضا ربانی
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو سپریم کورٹ کے دو ججوں کے خلاف قانونی بدنیتی پر مبنی ریفرنس بھیجنے پر آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد میں پی پی پی رہنما مولا بخش چانڈیو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رضاربانی نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی کوئی سمت نہیں ہے، گیس، بجلی اور آٹے سمیت ہر چیز کے نرخ بڑھتے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کھانے کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے کے باعث مہنگائی میں 1.24 فیصد اضافہ
رضا ربانی نے کہا کہ 23 اکتوبر کو جو سوالات اٹھائے گئے اور حکومت نے نجکاری کی جو فہرست دی تھی اس میں روزویلٹ ہوٹل بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکشن 124 (اے) ملک میں طلبہ پر نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کو خاموش رکھا جائے جبکہ ضروری سروسز ایکٹ تمام سرکاری اداروں میں لگا دیا گیا ہے تاکہ لیبر اور ٹریڈ یونینز کی سرگرمیوں کو بند کردیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کی آواز دبانے کے لیے انہیں اٹھایا جا رہا ہے، غائب کیا جا رہا ہے، بند کیا جا رہا ہے، نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے تاکہ ان پر دباؤ بڑھے اور وہ سچ اور حق کی بات نہ کریں، اگر یہ ایک فسطائی نظام نہیں ہے تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ فاشزم اور کیا ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے موجودہ حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت آئین کے ماورا کام کر رہی ہے لہٰذا وہ مستعفی ہو جائے لیکن اب ایک اور ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہم مطالبہ کر رہے ہیں ناصرف حکومت بلکہ صدر بھی مستعفی ہو جائیں۔
انہوں نے صدر مملکت کے استعفے کے مطالبے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ صدر مملکت نے آرڈیننس جاری کیے اور آرٹیکل 89 کے تقاضوں کو مدنظر نہیں رکھا اور ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل کردیا۔
مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ
رضا ربانی نے کہا کہ صدر نے الیکشن کمیشن میں دو اراکین تعینات کیے تھے، 22 اگست 2019 کو صدر مملکت نے خالد محمود صدیقی کو سندھ سے اور منیر احمد کاکڑ کو بلوچستان سے رکن تعینات کیا، چیف الیکشن کمشنر نے ان اراکین سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا کیونکہ انہوں نے کہا کہ آئین کے تقاضے آرٹیکل 213 کی شق 2(اے) اور 2(بی) کے ساتھ اگر آرٹیکل 218 کے ساتھ پڑھا جائے تو ان کے تقاضے صدر نے پورے نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نومبر 2019 میں صدر کا صدارتی حکم منسوخ کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے 2019 کے وسط میں گیس کے انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ آرڈیننس 2019 نفاذ کیا، یہ ایک داغدار عمل تھا جس میں مختلف شعبوں بالخصوص کھاد کے شعبے کو رعایت، استثنیٰ اور ٹیکس سے چھوٹ دی گئیں اور یہ بھی آرڈیننس کے ذریعے جاری کیا گیا تھا حالانکہ ہائی کورٹس میں درخواستیں اور سپریم کورٹ میں اپیلیں زیر التوا تھیں لیکن پھر بھی یہ آرڈیننس جاری کیا اور صدر کے جاری کیے ہوئے آرڈیننس سے وفاقی حکومت کچھ عرصے بعد دستبردار ہو گئی۔
سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ صدر نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے آرڈیننس کو دوبارہ نافذ کیا جسے آرٹیکل 89 کے تحت سینیٹ نے قرارداد کے ذریعے مسترد کیا تھا، صدر آرٹیکل 50 کے تحت پارلیمان کا حصہ ہے اور اس کو یہ چاہیے تھا کہ وہ سینیٹ کی رائے کو مقدم رکھتے اور اس آرڈیننس کو دوبارہ نافذ نہ کرتے لیکن انہوں نے آئین کی پروا کیے بغیر اس آرڈیننس کو دوبارہ لاگو کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر صدر نے اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209(5) کے تحت دو ریفرنس فائل کیے، یہ ریفرنس مختلف آئینی پٹیشنز کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 184(3) چیلنج کیے گئے، ایک فاضل جج کی طرف سے باقی بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسل کی طرف سے کیے گئے۔
انہوں نے اس حوالے سے آئین کے آرٹیکلز پڑھنے کے بعد گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ریفرنس قانونی بدنیتی پر مبنی تھا اور جو تفصیلی آبزرویشنز صدر، وزیراعظم اور وزیر قانون پر ہیں وہ آپ کو پیراگراف 102، 103، 106، 118، 121 اور 123 پر ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت صدر کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ایک دفعہ اس ریفرنس کو وزیر اعظم کے پاس واپس بھیج دیتے تاکہ وہ اس ریفرنس پر دوبارہ غور کرتے لیکن صدر نے ایسا نہیں کیا اور ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ صدر مملکت نے اپنی آئینی ذمے داریوں کو پورا نہیں کیا، آپ نے جب آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس بھیجا، آپ نے آزاد عدلیہ پر حملہ کیا اور جس طرح باقی اداروں پر یہ حکومت حملہ کر رہی ہے، ویسے یہ بھی ایک ناکام کوشش تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا
رضا ربانی نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد صدر ازخود استعفیٰ دے دیں گے لیکن ہفتہ دس دن گزرنے کے بعد بھی صدر نے استعفیٰ نہیں دیا لہٰذا ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے مناسب یہ ہو گا کہ صدر صاحب اپنا استعفیٰ دیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی آئینی بے ضابطگیوں کا سلسلہ یہیں نہیں رکتا بلکہ فروری 2020 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدر کی جانب سے لاگو کیے گئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے آرڈیننس کو منسوخ کردیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر کی جانب سے 10ویں نیشنل فنانس کمیشن کے قیام کے حوالے سے جو فیصلہ کیا تھا، اس کو جون 2020 میں بلوچستان ہائی کورٹ نے منسوخ کردیا تھا، اس کے بعد وفاقی محتسب کو وفاقی محتسب ایکٹ کے تحت صدر تعینات کرتا ہے، اس کو ہٹایا گیا لیکن انہیں ہٹانے کے فیصلے کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے منسوخ کردیا۔
رضا ربانی نے کہا کہ 31 اگست 2020 کو صدر نے پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 کو نافذ کیا یہ آرڈیننس سراسر آئین کی خلاف ورزی ہے، یہ آرڈیننس سندھ اور بلوچستان کی ملکیت آئی لینڈز کو وفاقی ملکیت میں تبدیل کرنے کی ناکام کوشش ہے، آئین کا آرٹیکل 172 اور سندھ ہائی کورٹ سمیت مختلف عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ یہ املاک سندھ حکومت کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ اپنی جگہ موجود ہے، وہاں اس فہرست میں آئین کے مختلف آرٹیکلز کی مخالفت کی وجہ سے اب صدر کا استعفیٰ بھی شامل ہے۔