کورونا وائرس کے صحتیاب مریضوں میں ایک اور بڑے نقصان کا انکشاف
نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو شکست دینے والے کو ممکنہ طور پر دماغی افعال کے نمایاں منفی اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے اور دماغی عمر میں 10 سال کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی جو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی ہے۔
امپرئیل کالج لندن کی اس تحقیق میں 84 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ کچھ سنگین کیسز میں کورونا وائرس سے متاثرین کے دماغی افعال میں کئی ماہ تک نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔
محققین نے بتایا 'نتائج اس خیال کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ کووڈ 19 سے دماغی صحت کوو بھی نقصان پہنچتا ہے، جو لوگ صحتیاب ہوجاتے ہیں، یعنی علامات رپورٹ نہیں کرتے، ان کے دماغی افعال میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی'۔
اس مقصد کے لیے ذہنی آزمائش کے ٹیسٹ جیسے الفاظ یاد کرنا، ہزل حل کرنا عام طور پر الزائمر جیسے امراض کے شکار افراد کی دماغی کارکردگی کی جانچ ہپڑتال کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور اب انہیں طبی ماہرین عارضی دماغی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
اس تحقیق میں شامل 84 ہزار 285 افراد گریٹ برٹش انٹیلی جنس ٹیسٹ کا حصہ رہے اور نتائج کو پری پرنٹ سرور MedRxiv پر شائع کیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ دماغی افعال میں کمی نمایاں تھی خصوصاً ایسے مریضوں میں جو کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ بدترین کیسز میں ان منفی اثرات کے نتیجے میں 20 سے 70 سال کی عمر کے افراد کی دماغی عمر میں اوسطاً 10 سال کا اضافہ ہوگیا۔
دیگر طبی ماہرین جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ نتائج کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
ایڈنبرگ یونیورسٹی کی اپلائیڈ نیورو امیجنگ کی پرپوفیسر جوآنا وارڈلا نے بتایا 'تحقیق میں شامل افراد کے کووڈ 19 سے قبل کے دماغی افعال کے بارے میں علم نہیں اور نتائج میں طویل المعیاد بحالی کو بھی نہیں دیکھا گیا، تو ہوسکتا ہے کہ دماغی افعال پر مرتب اثرات مختصر المدت ہوں'۔
لندن کالج یونیورسٹی کے میدیکل امیجنگ سائنس کے پروفیسر ڈیرک ہل کا بھی کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج مکمل طور پر قابل اعتبار نہیں کیونکہ اس میں بیماری سے پہلے اور بعد کے اثرات کا موازنہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا 'مجموعی طور پر یہ نتائج اہم ضرور ہیں مگر تحقیق کو مکمل نہیں بلکہ دماغ پر کووڈ کے اثرات کے حوالے سے غیرمکمل تحقیق ہے۔
انہوں نے مزید کہا 'تاہم محققین اس وقت کووڈ کے طویل المعیاد اثرات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے کوشش کررہے ہیں، تو یہ اہمیت رکھتا ہے کہ دماغی افعال کے حوالے سے بیماری کے کئی اور مہینوں کے بعد مرتب اثرات پر مزید تحقیقات کی جائے اور دیکھا جائے کہ اس سے کچھ افراد کے دماغی افعال کو مستقل نقصان تو نہیں پہنچتا'۔
ابھی نوول کورونا وائرس پر تحقیق کو ایک سال بھی نہیں ہوا اور اس سے جڑے اسرار مسلسل سائنسدانوں کو چونکا رہے ہیں، مگر سب سے خوفزدہ کردینے والا پہلو یہ ہے کہ اپنے دیگر کزنز جیسے عام نزلہ زکام یا سیزنل فلو کے برعکس یہ بظاہر طویل وقت تک جسم پر اثرات مرتب کرنے والا ہے۔
یہ دیکھنا یا جاننا تو ابھی باقی ہے کہ کتنے عرصے تک اس کی علامات جسمانی نظام میں رہتی ہیں۔
مگر ایک جرمن طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر 3 میں سے 2 مریضوں کے دل میں ورم کووڈ 19 سے صحتیابی کے 71 دن بعد بھی موجود تھا۔
دیگر محققین نے دریافت کیا کہ اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے متعدد افراد میں 3 ماہ بعد بھی پھیپھڑوں کے نقصان کو دریافت کیا گیا اور ابھی وبا کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
لانگ کووڈ یا اس کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک دماغی دھند بھی ہے، جس میں مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر کرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔
امریکا کے نارتھ ویسٹرن میڈیسین میں دماغی امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ایگور کورولنک کے مطابق 'ہزاروں افراد کو ان مسائل کا سامنا ہے اور کووڈ 19 سے صحتیاب ایسے سیکڑوں افراد کا معائنہ کرچکے ہیں، ورک فورس پر اس کے اچرات بہت نمایاں ہوں گے'۔
ماہرین اس حوالے سے پریقین نہیں کہ کس وجہ سے لوگوں کو دماغی دھند کا سامنا ہورہا ہے ، جس کی مختلف علامات لوگوں میں نظر آرہی ہیں اور ایسے افراد بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن میں کووڈ 19 کی شدت معتدل تھی اور پہلے سے کسی بیماری کے شکار نہیں تھے۔
اس حوالے سے خیال کیا جارہا ہے کہ وائرس کے خلاف جسم کا مدافعتی ردعمل بدستور متحرک رہتا ہے یا خون کی شریانوں میں ورم دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔
کووڈ 19 کے دوران نظام تنفس کے مسائل کے باعث ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کو ذہنی الجھن اور دیگر دماغی افعال متاثر ہونے کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مریضوں کو زیادہ وقت تک ہسپتال میں رہنے کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ اموات کی شرح زیادہ اور ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد اکثر روزمرہ کی سرگرمیوں کو بحال نہیں کرپاتے۔
مگر ایسے افراد میں دماغی دھند کے طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے تحقیقی کام اب شروع ہوا ہے۔
اگست میں فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے تھے، جس میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے 120 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد 34 فیصد کو یادداشت کی محرومی اور 27 فیصد کو توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔
ایک حالیہ سروے (جس کے نتائج جلد شائع ہوں گے) میں لگ بھگ 4 ہزار کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔
اس تحقیق میں شامل انڈیانا یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی ایسوسی ایٹ ریسرچ پروفیسر نٹالی لمبرٹ نے بتایا کہ 50 فیصد سے زیادہ افراد نے صحتیابی کے بعد توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔
یہ 101 طویل المعیاد اور مختصر المدت علامات کی فہرست میں چوتھی سب سے عام علامت ہے، یادداشت کے مسائل، سرچکرانے یا الجھن کی شکاہت ایک تہائی سے زیادہ افراد نے کی۔
پراسرار وجہ
دماغی دھند کی وجہ اب تک اسرار بنی ہوئی ہے، جس کی ایک جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی علامات بہت مختلف ہیں۔
امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف نیورولوجیکل ڈس آرڈر اینڈ اسٹروک میں اعصابی نظام کے امراض کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر اوریندرا ناتھ کے مطابق 'اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ لوگوں کا مدافعتی نظام ابتدائی بیماری ختم ہونے کے بعد بھی متحرک ہے'۔
یالے اسکول آف میڈیسین میں اعصابی امراض کی ماہر ڈاکٹر سرینہ سپوڈچ نے بتایا کہ خون کی شریانوں میں ورم بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے، کیونکہ کسی بیماری کے دوران ایسے مدافعتی مالیکیولز کا اخراج ہوتا ہے جو بیماری کے خلاف جسم کو دفاع تو فراہم کرتے ہیں، مگر کسی حد تک زہریلے اثرات کے حامل ہوتے ہیں خاص طور پر دماغ کے لیے۔
ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر ڈونا کم مرفی کے مطابق معمولی فالج بھی چند علامات کا باعث ہوسکتا ہے، جس کا سامنا خود ان کو کووڈ 19 سے صحتیابی کے بعد ہوا۔
دیگر ممکنہ وجوہات میں آٹوامیون ردعمل بھی شامل ہوسکتا ہے، جب اینٹی باڈیز غلطی سے اعصابی خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔
ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم میں دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر ایلیسن نیویز کا کہنا تھا کہ علامات جیسے ہاتھوں پیروں میں سنسناہٹ، سوئیاں چبھنا یا سن ہونا کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب اعصاب کو نقصان پہنچا ہو۔
دماغی دھند کا سامنا کرنے والے کچھ افرد کو بدستور پھیپھڑوں یا دل کے مسائل سے بھی مقابلہ ہوسکتا ہے، جس سے اعصابی علامات کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک ایم آر آئی اسکینز میں دماغی حصوں کو نقصان پہنچنے کا عندیہ نہیں ملا۔
ڈاکٹر ڈونا مرفی کے مطابق اس حوالے سے تحقیق بہت ضروری ہے تاکہ علامات کو سنجیدگی سے لیا جاسکے۔