• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کو ایوان سے نکال دیا گیا

شائع October 28, 2020
قومی اسمبلی میں اسپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رکن کے درمیان تلخ کلامی ہوئی— فوٹو: ڈان نیوز
قومی اسمبلی میں اسپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رکن کے درمیان تلخ کلامی ہوئی— فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی اور اسپیکر کے درمیان تلخ کلامی کے نتیجے میں ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کو ایوان سے نکال دیا گیا۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں درآمدی پالیسی کے خلاف اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تشکیل، وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ

اپوزیشن کے واک آؤٹ کے باوجود ایوان میں اس وقت ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی جب پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ گفتگو کی اجازت نہ ملنے پر اپنی نشست سے اٹھ کر اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے ڈائس کے قریب آ گئے۔

اس موقع پر قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ انہیں ایوان سے نکالا جائے، آپ پورے سیشن میں یہاں نہیں بیٹھ سکتے۔

اسپیکر نے آغا رفیع اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ نکلیں یہاں سے، آپ یہاں آج نہیں بیٹھ سکتے'، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کوئی میرے قریب تو آ کر دکھائے۔

قاسم سوری نے انہیں پھر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو بطور اسپیکر کہہ رہا ہوں کہ آپ یہاں سے جائیں جس پر آغا رفیع اللہ نے کہا کہ آپ معاون خصوصی کا دفاع کرنے کے حوالے سے میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ نے گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کا فیصلہ 2 روز کیلئے مؤخر کردیا

قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی نے سارجنٹ کو حکم دیا کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کو ایوان سے باہر لے کر جائیں۔

اس موقع پر ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا اور ہر طرف شور شرابے کے سبب کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔

سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کی ڈپٹی اسپیکر سے معذرت

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس پر مجھے افسوس ہے، ایوان میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور میں معافی مانگتا ہوں، براہ مہربانی آپ اپنی رولنگ واپس لے لیں۔

سابق وزیر اعظم کی درخواست کے باوجود اسپیکر نے آغا رفیع اللہ کو ایوان سے باہر نکالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ معافی مانگ رہے ہیں تو یہ ایک مرتبہ ایوان سے باہر جا کر واپس آئیں اور معافی مانگیں۔

مزید پڑھیں: 'ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ اس کو لانے والوں سے ہے'

راجا پرویز اشرف نے رولنگ واپس لینے کی درخواست جاری رکھی لیکن اسپیکر نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا اور آغا رفیع اللہ کو ایوان سے باہر نکالنے پر زور دیا۔

اسپیکر کی چیئر کا احترام کرنا چاہیے، علی محمد خان

اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوانین کے تحت چیئر سے جو رولنگ آئی ہے اس پر عمل کیا جائے، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے معذرت بھی کی اور میں یہ سمجتا ہوں کہ چیئر کا احترام رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں درخواست کروں گا کہ اپوزیشن کے رکن آغا رفیع اللہ چیئر کا احترام کریں، سابق وزیر اعظم نے خود معافی بھی مانگی ہے اور آپ چیئر کی رولنگ کے مطابق ایک منٹ کے لیے لابی چلے جائیں اور پھر واپس آ جائیں لیکن اس وقت چیئر کی رولنگ پر عملدرآمد پورے ایوان اور اس چیئر کی عزت کا سوال ہے اور رول 19 اور 20 کے تحت آپ اس پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے اس کی پابندی نہ کی تو رول 21 کے تحت، اگر ممبر جان بوجھ کر رولنگ کی خلاف ورزی کرے تو اگر اسپیکر کو یہ ضروری لگے تو جس رکن نے اس کی اتھارٹی کو نہیں مانا اور اس کی رولنگ کی توہین کی تو انہیں وارننگ دے کر ایوان کی کارروائی ہونے تک معطل بھی کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے درخواست کی کہ آغا صاحب ایوان سے باہر چلے جائیں اور واپس آ کر اپنا نقطہ نظر بیان کر دیں لیکن رولز کی پابندی کی جائے، چیئر کا احترام کیا جائے اور اگر اس ایوان کو رولز کے تحت نہیں چلایا جائے گا تو یہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'کیا آپ پوری پی ڈی ایم کو جیل میں ڈال سکتے ہیں؟'

اسپیکر کی جانب سے روکنگ واپس نہ لیے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی ایوان سے باہر چلے گئے اور ایک منٹ بعد واپس ایوان میں آ گئے۔

درآمدی پالیسی سے ملک کو 440 ارب کا نقصان ہوا، خواجہ آصف

اس سے قبل قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ یہ کیسی زرعی پالیسی ہے کہ وہ چیزیں جن میں ہم خود کفیل تھے آج ہم انہیں درآمد کر رہے ہیں اور پاکستان میں ان کی قلت ہے اور یہ قیمتیں کبھی نہیں سنی تھیں۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ آصف نے حکومتی زرعی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ آصف نے حکومتی زرعی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ درآمد کی غلط پالیسی اپنانے سے 440 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، یہ رقم کون ادا کرے گا، یہ نقصان عام پاکستانی ہوشربا مہنگائی کی صورت میں اٹھا رہا ہے جس سے 30-35 ہزار ماہوار کمانے والے شخص کے لیے زندگی گزارنا ناممکن ہو گیا ہے۔

خواجہ آصف نے گندم کی قیمت 1600 روپے فی من مقرر کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی قیمت 2 ہزار روپے من مقرر کی جائے اور اگر صرف 40 ارب روپے کسان کو دیے جائیں تو پوری ہو سکتی ہے اور آپ خود کفیل ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں: آل پارٹیز کانفرنس: جدوجہد عمران خان کے نہیں انہیں لانے والوں کیخلاف ہے، نواز شریف

انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت کی توجہ ہونی چاہیے لیکن اپنے دوستوں اور اے ٹی ایمز کو فائدہ پہنچانے میں مصروف ہیں، ہم اس مسئلے پر اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہیں۔

گندم کی قیمت کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا، وزیر داخلہ

ان کے بعد وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے بات کی ہے تو جواب بھی سننا چاہیے، پارلیمانی تہذیب کا تقاضا تو یہی ہے کہ جو سوال کیا جائے اس کا جواب بھی سنا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کل کابینہ میں گندم کی قیمت 2 ہزار روپے من مقرر کرنے پر بحث ضرور ہوئی ہے لیکن فیصلہ نہیں ہو، تین صوبوں نے اپنی سفارشات دے دی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیدواری قیمت ایک فارمالے کے تحت تیار کرنے کے بعد پنجاب نے اپنی سفارشات بھجوا دی ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے بھی اپنی سفارشات بھجوا دی ہیں لیکن حکومت سندھ نے تاحال اپنی سفارشات نہیں بھجوائیں جس کی وجہ سے اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر بحث ہوئی ہے، کمیٹی بنی ہے اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ہماری حکومت ایک پیکج دینا چاہتی ہے اور اس پیکیج میں کھاد، بیج اور ادویات رعایتی قیمتوں پر دینا چاہتی ہے اور یہ زرعی کمیٹی ایک پیکیج کی صورت میں اعلان کرے گی جبکہ اپوزیشن کی تجویز پر یقیناً غور کریں گے۔

مزید پڑھیں: 2 سال میں سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے، شبلی فراز نے مہنگائی کی ذمہ داری اپوزیشن پر ڈال دی

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جو بھی سفارشات ہیں وہ کمیٹی کو بھجوا دے، ہم یقیناً پاکستان کے بہتر مفاد میں فیصلہ کریں گے اور ان کی سفارشات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔

مراد سعید کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے خلاف قرارداد

ایوان میں خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما مراد سعید نے کہا کہ پچھلے چند دنوں کے دوران جلسوں میں آئین کے آرٹیکلز اور اس ایوان کی قراردادوں کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

مراد سعید نے ایوان زیریں میں قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایوان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' کے جلسے میں آئین کے آرٹیکل 251 کے خلاف اور ہرزہ سرائی شدید مذمت کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 251 اور پارلیمانی قراردادوں کی توہین، آئین پاکستان اور اس ایوان کی توہین ہے، یہ مقدس ایوان ایسے بیانات اور ہرزہ سرائی کی شدید مذمت کرتا ہے جس میں آئین پاکستان کی توہین کی گئی'۔

ایوان میں قرارداد کے حق میں ووٹنگ کرائی گئی اور اسے منظور کر لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: خدشہ ہے پاکستان میں عدم استحکام کیلئے بھارت، افغانستان کو استعمال کرے گا، وزیر اعظم

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قومی زبان پر جو بیان دیا گیا وہ آئین کے آرٹیکل 251 کی توہین کی گئی اور پورا پاکستان اور یہ ایوان اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی جلسے میں ایک اور تقریر کی گئی جس میں کہا گیا کہ پاک افغان سرحد پر جو باڑ لگائی جا رہی ہے اسے اکھاڑ پھینکیں گے، 2016 میں یہ قرارداد خود ہم نے بحیثیت اپوزیشن کے رکن کے پیش کی تھی کیونکہ جب بھی کوئی بم دھماکا ہوتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ باہر سے کوئی لوگ آئے، اس باڑ کے بعد ہمارا پاکستان محفوظ ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ملک میں کورونا کا بحران آیا تو انہوں نے خوب سیاست کی، جب ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر ملکی مفاد میں قانون سازی ہو رہی تھی تو انہوں نے جوابی این آر او پیش کردیا جس کو اس ایوان نے مسترد کردیا اور اس کے بعد یہ سڑکوں پر نکل آئے۔

مراد سعید نے کہا کہ ہم ملک مخالف بیانات کی شدید مذمت کرتے ہیں، ہم ان کو این آر او نہیں دیں گے اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔

انہوں نے کہا کہ جو لندن میں بیٹھا ہوا ہے ان کی اتنی اوقات نہیں، وہ خود کرپٹ، چور، سرٹیفائیڈ ثابت ہو کر وہاں بیٹھا ہوا ہے، عدالتوں نے اسے صادق اور امین ڈکلیئر نہیں کیا مطلب جھوٹا اور کرپٹ ہے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کون ہوتے ہیں جو آرمی چیف سے سوال کریں، اسد عمر

مراد سعید کے اس بیان کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے احتجاج کیا اور ایوان میں دوبارہ ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔

اگر آپ پی ڈی ایم کو غیرآئینی قرار دیتے ہیں تو اپنے آپ کو آئینی کیسے قرار دیں گے، راجا پرویز اشرف

سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں ہم سب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ پارلیمان کا تقدس، آپ کی اسپیکر چیئر کا تقدس ہم سب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، خواہ ہم اس طرف بیٹھے ہوں یا اُس طرف بیٹھے ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہمارے معزز رکن نے کوئی گالی دی ہے لیکن میں یہ وضاحت دینا چاہتا ہوں کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے معزز رکن رفیع اللہ حلف اٹھا کر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے گالی نہیں دی۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اپنے رویوں کو قابو میں رکنا چاہیے، اگر آپ ایوان کا ماحول خراب کرتے ہیں تو اس کے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں لہٰذا میری ایوان کے دونوں اطراف سے استدعا ہے کہ وہ ایوان کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں۔

اس موقع پر انہوں نے مراد سعید کی تقریر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم اس طرح کی تقریریں سن سن کر تھک چکے ہیں اور یہ قراردادیں پیش کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم غیرآئینی ہے، غیرقانونی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی واپسی کیلئے برطانوی وزیر اعظم سے بات کرنا پڑی تو کروں گا، عمران خان

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اگر آپ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو غیرآئینی قرار دیتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو آئینی کیسے قرار دیں گے، کیا ہم یہ کہیں کہ اس وقت ملک میں جمہوریت نہیں ہے؟ کونسا آئین پاکستان کے عوام کو روکتا ہے کہ وہ اپنا احتجاج نہ کریں۔

'جناب اسپکر! کسی کو برا نہیں منانا چاہیے اگر میں یہ کہوں کہ آپ کو کیا پتا آئین کا؟ آئین کے تو ہم خالق ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اس آئین کا تحفظ کیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف آپ کا یا میرا نہیں بلکہ 22 کروڑ لوگوں کا ہے، یہ پرانا ہو گیا کہ فلاں غدار ہے، فلاں محب وطن نہیں ہے، فلاں چور ہے، فلاں ڈاکو ہے اور اگر ہم نے ڈاکو اور چور گننے شروع کر دیے تو پھر شاید کے آپ کے پارلیمان کی کوئی عزت نہیں رہے گی، لوگوں کی نظروں میں آپ خود گر جائیں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی حکومت پر تنقید

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی رکن کشور زہرہ نے کہا کہ اپوزیشن میں رہنا بہت آسان ہے، ان کا تو کام ہے کہ آ کر اپنی حاضری لگانا، حاضری کم دیکھ کر کورم کی نشاندہی کرنا، شوقر مچانا اور ہنگامہ کرنا ہے۔

اس موقع پر اسپیکر نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا آئٹم نمبر تین پیش کریں جس کے لیے آپ کافی عرصے سے منتظر تھیں، اس کو جلدی پیش کریں۔

کشور زہرہ نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو میری بات سننی پڑے گی، آپ کی ذمے داری ہے، اس لیے کہ اپوزیشن جو کچھ کر رہی ہے اور حکومت ان کو جواب دینے کے لیے اپنی تمام تر توانائی خرچ کر رہی ہے اور ایک کونے میں بیٹھے ہوئے اتحادیوں کی آواز نہ آپ کے کان تک جاتی ہے اور نہ آپ کی ان پر نظر پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے سامنے ہم جوابدہ ہیں اور اپوزیشن عوام کے سامنے حکومت کے کپڑے اتارتی ہے، حکومت کو بدنام کرتی ہے اور حکومت کے لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ کیا فیصلے ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی گستاخانہ خاکوں کےخلاف قرارداد منظور

ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کے بہت لوگوں کو بے روزگار کیا گیا ہے، صرف کراچی سے ریڈیو پاکستان کے 740 لوگ بے روزگار کر دیے گئے ہیں، اس میں ریٹائرمنٹ کی عمر والے نہیں بلکہ 36، 38 سال کی عمر کے ملازمین شامل ہیں، ان کے چولہے بجھ رہے ہیں اور میں آپ کو اس معاملے میں مشیر بن کر بتا رہی ہوں کہ اس فیصلے کو واپس لیجیے اور اپنے ان مشیروں سے جان چھڑائیے جو ایسے فیصلے کر رہے ہیں کہ بے روزگار کر کے یا سرکاری املاک بیچ کر پیسے جمع ہوں گے۔

کشور زہرہ کی تقریر کے دوران بھی اپوزیشن اراکین کی جانب سے شور شرابے کا سلسلہ جاری رہا۔

ریڈیو پاکستان سے خلاف ضابطہ بھرتی کیے گئے 749 ملازمین کو نکالا گیا، علی محمد خان

وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ 10-15 سال قبل قانون کو بالائے طاق رکھ کر بھرتیاں کی گئیں تو اگر ان ملازمین کو ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے نکالا جاتا ہے تو اس میں موجودہ حکومت کا کوئی قصور نہیں بلکہ وہ لوگ ذمے دار ہیں جنہوں نے انہیں بھرتی کیا۔

انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کو ایک ارب روپے کا خسارہ ہے جو ہمارے دور کا نہیں ہے اور بھرتیاں بھی ہمارے دور کی نہیں ہیں، 749 کنٹریکٹ ملازمین فارغ کیے گئے ہیں جس میں راولپنڈی اسلام آباد میں 375، پنجاب میں 140، سندھ میں 93، خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 37 اور شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سے 140 ملازمین کو نکالا گیا۔

انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان 749 میں سے 225 ایسے ہیں جو ان ہی میں سے کسی کے بھائی ہیں اور جب ان کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو جن قواعد و ضوابط کے تحت ان کی بھرتی ہونی تھی، اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھرتیاں کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: جیو نیوز کے ’لاپتا‘ رپورٹر علی عمران سید گھر پہنچ گئے

ان کا کہنا تھا کہ 2012 کی خورشید شاہ کمیٹی نے 870 ملازمین کو مستقل کردیا تھا اور جب ملک مالی بحران سے دوچار ہے تو ایسے میں ریڈیو پاکستان ایسے ملازمن کا مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ پہلے ہی پورا ادارہ خسارے میں ہے لہٰذا یہ سخت فیصلہ لینا پڑا۔

کشمیر کا سقوط جان بوجھ کر کیا، آپ اس ایشو سے جان چھڑانا چاہتے تھے، خواجہ آصف

بعد ازاں خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے ایک مرتبہ پھر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کے پاکستان نے بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک مثبت قدم اٹھایا لیکن اس کے نتائج کیا سامنے آئے؟

انہوں نے کہا کہ اس بھارتی پائلٹ کو رہا کر کے ہم نے جو سرمایہ کاری کی، اس سرمایہ کاری کے محاصل کی جو بات کی گئی تھی وہ ریٹرنز نہیں ہوئے بلکہ منفی ریٹرنز آئے۔

ضرور پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا ایک اور متنازع قانون، غیر کشمیریوں کو زمین خریدنے کی اجازت

ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو رہا کرنے کے لیے اور اسے باعزت گھر پہنچانے کے لیے آپ لوگ انتظامات کر رہے ہیں، قانون سازی آپ کر رہے ہیں، سہولتیں آپ فراہم کر رہے ہیں اور ہمارے ذمے ڈال رہے ہیں، تھوڑا اپنے گریبان میں تو جھانکیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کا جو بڑا فیصلہ اٹھایا اس کی ہم نے اور پیپلز پارٹی نے حمایت کی، اس کے بعد ہوا کیا، آپ نے دعا کی کہ مودی جیت جائے، کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، بھارت کو خوش کرنے کی اس پالیسی کا نتیجہ سقوط کشمیر اور سقوط سری نگر ہوا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ 'باہر ایک گھڑی لگا دی گئی ہے سرینا کے بعد اور چار تصاویر ڈی چوک پر لگا دیتے ہیں، ہمارا کشمیر کے ساتھ صرف اتنا رشتہ باقی رہ گیا ہے کشمیر کے ساتھ، کل لائٹ بند کر کے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی شو کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ رنگ بازی ہو رہی ہے، ہم نے اس کا سقوط سوچ سمجھ کر کیا ہے، ہم اس ایشو سے جان چھڑانا چاہتے تھے، کشمیر کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، ان حکمرانوں کو تاریخ معاف نہیں کرے گی، کشمیری لاک ڈاؤن میں آج ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'عدالت کے فیصلے کے بعد حکومت کے اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز نہیں رہا'

انہوں نے کہا کہ 'کل جو دن گزرا اس کی یاد میں میرے حلقے میں، میرے ساتھ والے حلقے میں، سیالکوٹ میں جموں کے کشمیری ہیں اور اس تاریخ کو بارڈر کراس کرتے ہوئے ایک لاکھ کشمیری شہید ہوا، ہر گھر کے اندر شہید ہے، اینکر حامد میر کی نانی بارڈر کراس کرتے ہوئے لاپتا ہوئیں، اس کے بعد نہیں ملیں'۔

خواجہ آصف نے کہا کہ لوگوں نے کشمیر سے یہاں آنے کے لیے خون کے دریا عبور کیے اور اس حکومت نے کشمیر کو بیچ دیا، موجودہ وزیر اعظم نے کشمیر سے غداری کی ہے اور تاریخ میں عمران خان کا نام سیاہ حروف میں لکھا جائے گا، ان کا لیڈر غدار ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024