ملک میں حقیقی جمہوریت ہوتی تو صحافی اغوا نہیں ہوتے، اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں حقیقی جمہوریت ہوتی تو چینل بند نہیں ہوتے، صحافی اغوا اور پابند سلاسل نہیں ہوتے۔
لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ عوام کا مینڈیٹ آج نہیں بلکہ 1971 کے بعد کبھی کبھی زیادہ چوری کیا گیا، پنجاب میں پہلے اتنی مداخلت نہیں تھی جتنی بلوچستان میں تھی لیکن اب اپنی مداخلت کی اس انتہا تک پہنچ گئے کہ اپنے دائرہ اختیار سے نکل کر صرف اپنی کالونی بنارہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کا پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سے علیحدگی کا اعلان
اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان سے پھیل کر اب پورے ملک تک آچکے ہیں، ہمارے جمہوری کلچر اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ احساس اگر کل ہوتا تو بہتر ہوتا لیکن اگر آج بھی ہوا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا ساتھ اس لیے چھوڑا کیونکہ بلوچستان کا احساس محرومی کم نہیں ہوا اگر کمی آتی تو ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحاد کچھ بنیاد اور نکات پر بنتے ہیں، کچھ وعدوں اور معاہدوں پر بنتے ہیں، جب کوئی ایک فریق اپنے ان معاہدات پر عمل نہ کرے اور اپنے وعدوں کا پاس نہ رکھے تو اس سے بڑی اُمید کیا رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہم ان مسند والوں میں شامل تھے جب ہم ان سے مطمئن نہیں رہے تو حزب اختلاف اپنی جگہ دیگر لوگ کیسے مطمئن رہیں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم پوچھ رہے تھے ہمارے 6 نکات پر عمل کیوں نہیں ہو رہا ہے، ان میں کون سی ایسی شق ہے جو غیرآئینی اور غیر قانونی ہے، اگر ایسا جرم ہم نے کیا ہے تو کیا اس پر دستخط کرنے والوں کو مجرم ٹھہرایا نہیں جاسکتا’۔
اختر مینگل نے کہا کہ ‘کیا جنہوں نے دستخط کیے ہیں وہ ایوان صدر اور اسپیکر کی کرسی میں بیٹھے ہوئے نہیں ہیں، انہوں نے ہمارے ساتھ جو معاہدے کیے تھے وہ پورا نہیں کرسکے’۔
یہ بھی پڑھیں: ‘مسئلہ بجٹ میں ووٹ دینا نہیں بلکہ بلوچستان کی حالت زار ہے‘
انہوں نے کہا کہ ‘یا تو پہلے دن کہہ دیتے، حکومت سازی کے دوران ہمارے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے بھی مذاکرات ہوئے تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ بھی پہلے دن کہہ دیتے تو شاید نوبت اس حد تک تلخیوں تک نہ پہنچتی اور اسمبلی کے فلور پر ہم انہیں الوداع نہ کہتے’ ۔
پی ٹی آئی حکومت کی سابق اتحادی جماعت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے نکات میٹرو بس سے مشکل نہیں تھے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم تو ان کے ساتھ چل رہے تھے لیکن وہ رینگ رہے تھے تو ہماری ذمہ داری نہیں تھی ان کو کندھوں میں اٹھاتے، دو سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا ہے، اسمبلی اور تمام اجلاس میں انہیں یاد دہانی کرواتے رہے’۔
اخترمینگل نے کہا کہ ‘جب انہوں نے ہمارے مطالبات نہیں مانے تو پھر ہمارا اخلاقی فرض تھا کہ ان کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے کیونکہ ہم کسی وزارت کے لیے ان کے ساتھ نہیں گئے تھے جبکہ دیگر اتحادی جو شامل ہوئے تھے یا بھجوائے گئے تھے ان کو وزارتیں ملیں’۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘کیا ہم سمجھیں کہ اس وقت ملک میں حقیقی جمہوریت ہے، حقیقی جمہوریت ہوتی تو ان چینلوں پر پابندی نہ ہوتی، آپ کے مالکان پابند سلاسل نہیں ہوتے اور صحافی اغوا نہیں ہوتے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘صحافیوں کو دھمکی آمیز فون نہیں آتے، اگر یہ جمہوریت ہے تو ایک انوکھی جمہوریت ہے’۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل سابق حکمران جماعتوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ تمام جماعتیں ماضی میں اقتدار میں رہی ہیں لیکن آج ہمارے مؤقف کی حمایت کر رہی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کوئی اور قوت ہے جو لاپتا افراد کے معاملات میں ملوث ہیں کیونکہ اگر یہ ملوث ہوتے تو آج ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے’۔
مزید پڑھیں: بلوچستان سے ابھی بھی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں، اختر مینگل
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب پی ڈی ایم کا اجلاس ہوگا تو اسکرین کے ذریعے بتائیں گے دمادم مست قلندر کیسے ہوگا’۔
نواز شریف کے بیانیے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہم تو کب سے اس بیانیے پر قائم ہیں بلکہ اس بیانیے کو بنانے والے ہم ہیں’۔
پشاور کے مدرسے میں دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ بڑا ہی افسوس ناک اور درد ناک واقعہ ہے، اللہ سے دعا ہے کہ شہدا کو جنت میں جگہ دے’۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوسکتی ہے۔