’میں نے کوئٹہ جلسے میں کیا کچھ دیکھا؟‘
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کے جلسوں کی ہیٹ ٹرک کوئٹہ میں ہونی تھی۔ جلسے کی کوریج کے لیے کوئٹہ جانے کے حکم پر لبیک کہنے کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی نہیں تھا۔
نیکٹا کا متوقع دہشتگردی الرٹ اور بلوچستان حکومت کے ترجمانوں کی جانب سے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر جلسہ منسوخ کرنے کی بار بار اپیلیں، میرے اہل خانہ کو خوفزدہ کرنے کے لیے کافی سے زیادہ تھیں۔
جلسے کی صبح نجی ایئرلائن کی پرواز سے کوئٹہ جانے کا قصد کیا۔ جہاز میں ایک سیٹ خالی چھوڑنے اور ناشتہ نا دینے کی کورونا ایس او پی اب ختم ہوچکی ہے، اس لیے جہاز بھرا ہوا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر جب نظر دوڑائی تو میرے برابر میں بیٹھے درمیانی عمر کے فرد گفتگو کے لیے سب سے مناسب محسوس ہوئے۔ میرے ہمراہی اسلام آباد کی ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔
بلوچستان کے حالات پر وہ کہنے لگے کہ بلوچ عوام اپنے حقوق کے لیے پہلے کے مقابلے اب زیادہ سنجیدہ ہیں۔ جلسے کے حوالے سے انہوں نے یہی بتایا کہ پی ڈی ایم کی جن جماعتوں نے جلسہ کرنا ہے وہ اکیلے بھی بڑے بڑے جلسے کرنے کی استعداد رکھتی ہیں اور کوئٹہ شہر کا مینڈیٹ بھی پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کے پاس ہے اس لیے جلسہ کامیاب ہی ہوگا۔ پروفیسر صاحب سمجھتے تھے کہ صوبائی حکومت بنیادی عوامی مسائل کی جانب عدم توجہی کی وجہ سے غیر مقبول ہو رہی ہے۔
مقررہ وقت پر جہاز کوئٹہ ایئر پورٹ پر لینڈ کر گیا۔ یہ ایئر پورٹ پرانے اسلام آباد ایئر پورٹ کی طرح چھوٹا لیکن خوبصورت ہے۔ ایئرپورٹ لاؤنج سے باہر آتے ہی سرد ہوا کے جھونکوں نے استقبال کیا۔ ایک رات پہلے کراچی میں تو اے سی چل رہے تھے لیکن یہاں سردی آچکی ہے۔ ایئرپورٹ کی پارکنگ بالکل خالی نظر آئی۔ باہر ہمارے بیورو چیف اور سینئر صحافی کاظم مینگل موجود تھے۔ ایئر پورٹ کے علاقے میں اب تک موبائل فون سروس موجود تھی۔ کاظم بھائی نے بتایا کہ ایئر پورٹ میں داخلے کی اجازت آج نہیں دی جا رہی کیونکہ گزشتہ رات محسن داوڑ کی گرفتاری پر ایئر پورٹ کے قریب احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔
کاظم مینگل صاحب کے ہمراہ کوئٹہ شہر کی جانب سفر شروع کیا۔ خوبصورت پہاڑوں اور صنوبر کے درختوں کے درمیان گھرے شہر کے مناظر نے اپنے ماحول میں محو کردیا تھا۔ اتوار کو کوئٹہ کے زیادہ تر بازار کھلے ہوتے ہیں۔ دن کے 10 بج رہے تھے اور ابھی سے شہر کے مختلف علاقوں سے ریلیاں نکلتی دکھائی دے رہی تھیں۔ پورے شہر میں جلسہ کرنے والی جماعتوں کے رنگ برنگ پرچم اور خوش آمدیدی بینر آویزاں تھے۔
12 بجے کے قریب ہم جلسہ گاہ پہنچ چکے تھے۔ میر جعفر خان جمالی روڈ سے ایوب اسٹیڈیم کی جانب راستے کے آغاز پر ہی پولیس اہلکار نے گاڑی سے اتر کر پیدل جانے کا حکم دیا۔ جلسہ گاہ میں میڈیا کے لیے مختص مقام تک پہنچتے پہنچے کم از کم 5 مرتبہ مکمل تلاشی اور 2 مرتبہ واک تھرو گیٹ سے گزرنا پڑا۔ سیکیورٹی کے تمام انتظامات جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رضاکار فورس انصار الاسلام کے ذمے تھے۔
ہمارا پہناوا تو مقامی افراد جیسا تھا لیکن کچھ تو اجنبی تھا، اسی لیے ہر تلاشی کے بعد رضا کار کان میں پوچھتے ’فورسز سے ہو’؟ جواب دینا ضروری نہیں تھا اس لیے مسکراہٹ سے ٹالنا بہتر سمجھا۔ ایک موقع پر اس وقت تو حد ہی ہو گئی جب میں ایک قطار میں کسی کے انتظار میں کھڑے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے کارکنان کی تصویر لینے لگا۔ ایک کارکن نے ناراضگی سے کہا کہ ‘بنا لو تصویر، اچھی طرح پہچان لو ہمیں‘۔ گمان ہوا کہ یہ بھی ہمیں کچھ اور ہی سمجھ رہے ہیں۔
جلسہ گاہ میں میڈیا کا داخلہ کہاں سے اور کیسے ہوگا یہ بھی امتحان ہی تھا۔ کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف بھیج دیا جاتا۔ ہر جانب سے دوسرے گیٹ کی طرف بھیجا جاتا رہا۔ اس کے برعکس کراچی جلسے میں میڈیا کے لیے مکمل پلاننگ کے ساتھ بھرپور انتظام تھا۔ اگرچہ رضاکار تو میڈیا کے ساتھ دوستانہ انداز میں پیش آرہے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ خود بھی انتظام سے آگاہ نہیں تھے۔ کافی جدوجہد کے بعد جلسہ گاہ میں انصار الاسلام کے انچارج سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے فوری داخلہ کارڈ جاری کیے اور ساتھ گیٹ پر بھی کہہ دیا کہ میرے دستخط کے بغیر کسی کارڈ کو کارآمد نہ سمجھا جائے۔
جلسہ گاہ کراچی اور گجرانوالہ سے مختلف تھا۔ یہاں کرسیوں کا انتظام نہیں تھا۔ اسٹیڈیم کی دونوں جانب پویلین ہیں۔ ایک پویلین خواتین کے لیے مختص تھا جبکہ دوسرے پر اسٹیج بنایا گیا تھا۔ تماشائیوں کے لیے بنائی گئی سیڑھیاں کارکنان کے بیٹھنے کے لیے استعمال ہوئیں جبکہ اسٹیڈیم کے درمیان میں انگریزی حرف ڈی (D) کی شکل میں کارکنان کے زمین پر بیٹھنے کے لیے انتظام تھا۔
خاردار تار اور اس کے بعد انصار الاسلام کے رضاکاروں کا حفاظتی حصار، یہ 2 چیزیں کارکنان اور قیادت کے درمیان حائل رہیں۔ اسٹیج کی سیکیورٹی کا انتظام بلوچستان کی انسدادِ دہشت گردی فورس کے پاس تھا اور ان کو انصار الاسلام کا ساتھ میسر تھا۔ انسدادِ دہشت گردی فورس کے جوان کسی انگریزی فلم کے کردار کی طرح پینٹ کوٹ اور ٹائی لگائے مستعد کھڑے تھے۔
اسٹیج سے سادہ ڈائس کو ہٹا کر بلٹ پروف ڈائس رکھا گیا جس پر بلوچستان پولیس کا مونوگرام بنا ہوا تھا، یعنی سرکاری ڈائس۔ کوئٹہ کا یہ جلسہ سرِ شام ہی ختم کرنے کا پلان تھا اس لیے اسٹیڈیم میں لائٹ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ اسٹیج کی دونوں جانب ڈیجیٹل اسکرینیں نصب تھیں جبکہ لائیو براڈ کاسٹ کے آلات اور طاقتور ساؤنڈ سسٹم بھی نصب کیے گئے تھے جس سے مختلف جماعتوں کے ترانے بجائے جا رہے تھے۔
جلسہ گاہ کے داخلی راستوں پر موجود دکانیں اور ہوٹل بند کرا دیے گئے تھے۔ اب چونکہ پانی اور کھانے کا کوئی بندوبست اس کے علاوہ نہیں تھا اس لیے اب دن بھر ٹھنڈی ہوا پر ہی گزارہ کرنا تھا۔
جلسہ شروع ہونے کا مقررہ وقت دن ایک بجے دیا گیا تھا۔ فوراً خیال آیا کہ اچھا موقع ہے شرکاء سے ابھی بات چیت کرلی جائے تو بہتر ہے۔ انصار الاسلام کے رضا کار سے اجازت لی کہ بھائی آپ سے سوال ہوسکتا ہے؟ چہرہ گوکہ کرخت دکھائی دے رہا تھا لیکن اخلاق اور بات کرنے کا انداز نرم اور سادہ تھا۔ میں نے فوری سوالات کی ایک قطار لگا دی کہ ’کتنے رضا کار کب سے ڈیوٹی پر ہیں اور کہاں کہاں سے آئے ہیں؟‘
رضا کار مولوی احمد جان نے بتایا کہ 4 ہزار رضا کار گزشتہ رات سے ڈیوٹی پر ہیں۔ وہ خود تو کوئٹہ شہر کے رہنے والے ہیں لیکن رضا کار بلوچستان بھر سے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ احمد جان نے فخریہ بتایا انصار الاسلام کے رضا کار نے ہی اس سے قبل کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے سے مولانا فضل الرحمٰن کو اپنی جان قربان کرکے بچایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انصار الاسلام کو خاص طور پر ابتدائی طبّی امداد اور جلسوں کی سیکیورٹی سمیت شرکا کو کنٹرول کرنے کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے اور باقاعدہ رجسٹر تربیت یافتہ کارکن ہی انصار الاسلام کا رضا کار بن سکتا ہے۔
اس کے بعد جلسہ گاہ کا رخ کیا۔ دن ایک بج رہے تھے اور جلسہ گاہ میں اب بھی قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ جلسہ گاہ ابھی تک مکمل بھری نہیں جاسکی تھی۔ اسٹیج سے جلسہ شروع کرنے کے اعلانات ہو رہے تھے۔ کراچی کے مقابلے میں یہاں آنے والے اپنی قیادت اور جلسے کے ایجنڈے سے زیادہ واقف نظر آئے۔ کوئٹہ کے مقامی شہری بھی اس جلسے میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مہنگائی اور بدانتظامی کا شکوہ ہر زبان پر تھا۔جمعیت علمائے اسلام کے کارکن سب سے بڑی تعداد میں موجود تھے۔
اسٹیج پر مختلف سطح کے قائدین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، لیکن سب کو پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں کے مرکزی قائدین کا انتظار تھا۔ہمیں لاہور سے منتخب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے ممبر صوبائی اسمبلی بھی اسٹیج پر ملے جن کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب سے اپنے بلوچ بھائیوں کے لیے محبت کا پیغام لائے ہیں۔
سوا ایک بجے دن تلاوتِ قرآن سے جلسے کا باضابطہ آغاز کیا گیا۔ اس دوران مرکزی قائدین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ سب سے پہلے بی این پی کے چیئرمین سردار اختر مینگل تشریف لائے، ان کے فوری بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے میاں افتخار اور سابق وزیر اعلی پختونخوا امیر حیدر ہوتی اسٹیج پر داخل ہوئے۔ بالترتیب مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز بھی 5، 5 منٹ کے وقفے سے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔
مریم نواز کے بلوچ ثقافتی لباس کو تمام دیکھنے والوں نے فوراً نوٹ کرلیا تھا۔ ڈیڑھ بجے تک اسٹیج مکمل طور پر سج اور بھر چکا تھا، لیکن پنڈال میں اب بھی جگہ موجود تھی۔ قائدین کی آمد پر پنڈال میں ایک دم جیسے بجلی دوڑ گئی ہو۔ وقفے وقفے سے نعرے بازی ہو رہی تھی۔ جوش میں آکر 2 مرتبہ ’گو نواز گو‘ کا نعرہ بھی اسٹیج سے لگا دیا گیا جس کے جواب میں ہر جانب قہقہے بلند ہوتے سنائی دیتے تھے۔ ایک اور گڑبڑ یہ بھی ہوئی کہ علامہ ساجد میر کے بجائے پروفیسر وارث میر کو خطاب کے لیے بلایا جاتا رہا۔
کراچی کی طرح پی ڈی ایم جماعتوں کے قائدین کی تقاریر کے لیے تقریباً وہی ترتیب رکھی گئی تھی۔ پہلا خطاب شاہ اویس نورانی نے کیا اور ابتدا سے ہی وہ بار بار اسٹیج سے خاموشی کی درخواست کرتے رہے۔ قائدین سے خطاب مختصر رکھنے کی اپیل کی جا رہی تھی کیونکہ منتظمین جلسہ اندھیرا ہونے سے پہلے ختم کرنا چاہتے تھے۔ اطلاع یہی تھی کہ مریم نواز کی واپسی بھی شام 7 بجے کی فلائٹ سے ہوگی۔
ڈرون کیمروں کے جدید دور میں جلسہ گاہ سے ایک پتنگ اڑائی گئی جس کے ساتھ بی این پی مینگل کا پرچم بھی ہوا میں اُڑ رہا تھا۔ وکلا کا وفد اسٹیج پر آنا چاہتا تھا لیکن جگہ ختم ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار انہیں روکتے رہے مگر بلآخر وکلا اسٹیج پر آنے میں کامیاب رہے۔
دن ڈھائی بجے تک جلسہ گاہ مکمل بھر چکا تھا۔ اب کہا جاسکتا ہے کہ مزید لوگوں کے اندر آنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اسٹیج سے حکم دیا جاچکا ہے کہ دیگر بند گیٹ بھی کھول دیے جائیں۔ مختلف میڈیا ہاوسز کے لیے کام کرنے والے افراد کی دوسری شفٹ نے بتایا کہ باہر اسٹیڈیم کی پارکنگ اور متصل سڑک بھی شرکا سے بھر چکی ہے۔ اب کہا جاسکتا تھا کہ جلسہ اپنی حاضری کے اعتبار سے کامیاب ہوچکا ہے۔
اسٹیج پر پشتو، بلوچی، براہوی اور اردو زبان سے مختلف اعلانات اور مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کا سلسلہ تقاریر کے درمیان جاری تھا۔ ہمیں سابق وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف سے بات کرنے کا بھی موقع ملا۔ ان سے پوچھا کہ 'حکومتی وزرا تاثر دے ہیں کہ شاید پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور بلاول بھٹو مسلم لیگ (ن) کے بیانیے سے کنارہ کرنے کے لیے آج کے جلسے میں شریک نہیں ہیں؟' راجہ صاحب نے نرم لہجے میں سختی سے ایسے کسی بھی تاثر کو رد کردیا اور بتایا کہ بلاول کا اسکردو کا دورہ 3 ماہ پہلے ہی پلان ہوچکا تھا اور یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی ہی اس اے پی سی کی میزبان تھی جہاں پی ڈی ایم کے قیام کا اصولی فیصلہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ملتان میں ہونے والے اپوزیشن اتحاد کے اگلے جلسے کی میزبان بھی پیپلز پارٹی ہی ہوگی۔
جلسے سے میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو کے ویڈیو لنک سے خطاب کی اطلاع تھی، لیکن 3 بجے تک اس حوالے سے تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔ شکوک پیدا ہونے کی وجہ صرف یہی تھی کہ شہر میں موبائل اور یہاں تک کے لینڈ لائن انٹرنیٹ سروس بھی بند تھی۔ راجہ پرویز اشرف خطاب کے لیے آچکے تھے اور ان کی ابتدائی گفتگو سے یہی لگ رہا تھا کہ بلاول نے خطاب نہیں کرنا کیونکہ انٹرنیٹ سروس بند ہوچکی ہے۔
سردار اختر مینگل کے کچھ جملے بہت ہی شاندار تھے۔ کہنے لگے کہ انگریز کوئٹہ کو لٹل لندن کہتا تھا۔ یہاں صنوبر اور گلاب کی خوشبو فضاؤں کو معطر رکھتی تھی لیکن آج یہاں بدقسمتی سے بارود اور خون کی بُو ہے جو کسی اور کا نہیں میری آنے والی نسلوں کا خون ہے۔ کہنے لگے سیاست میں ہمارے بال سفید ہوگئے اور یہاں رات و رات پارٹی بن کر اقتدار میں بھی آجاتی ہے۔ اختر مینگل کے بعد میاں نواز شریف کا ویڈیو خطاب شروع ہوا اور تمام نگاہیں اسکرین کی جانب اٹھ گئیں۔
مقررین جب کبھی اپنی تنقید کی توپوں کا رخ وفاقی حکومت سے صوبائی حکومت کی طرف کرتے تو مجمع ایک دم جاگ اٹھتا اور بھرپور جواب دیتا تھا۔ مطلب یہی تھا کہ جلسہ صرف وفاقی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کے بھی خلاف ہے۔ مقررین شہر میں موبائل سروس بند ہونے سے پیدا ہونے والی خوف کی فضا اور قافلوں کو روکے جانے کی مذمت بھی کرتے جا رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے اطراف میں سگنل جام کرنے والے آلات کی وجہ سے ڈرون کیمرہ اڑانے میں بھی مشکلات پیش آئی۔
سوا 4 بجے ایک سرخ ٹوکری اسٹیج پر مرکزی قائدین کی جانب جاتی ہے۔ آنکھوں میں سوال پیدا ہوتے ہیں۔ جلسہ گاہ سے دھوپ رخصت ہو رہی ہے اور ٹھنڈی اور خشک ہواؤں میں تیزی آرہی ہے، دوسری جانب سرخ ٹوکری کا راز بھی کھل گیا۔ اس میں تھرماس اور کپ رکھے ہیں جس سے قائدین کو چائے پلائی جا رہی ہے۔
عصر کی اذان ہوئی تو مولانا فضل الرحمٰن نماز کے لیے اسٹیج سے اترے۔ اُدھر انصار الاسلام کے کارکنان نے بھی اسٹیج کے نیچے صف بندی کرلی تھی۔ لیکن اس دوران خطاب جاری رہے اور اعلان ہوتے رہے کہ کسی نے جانا نہیں ہے۔ جلسہ ابھی جاری ہے۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ تصویریں اٹھائے اسٹیج کی جانب گئے اور بغیر کسی رکاوٹ مریم نواز تک پہنچ گئے۔ 5 بجے شام مریم نواز خطاب کے لیے ڈائس پر آئیں۔ فرانس سے گستاخانہ خاکوں کی مذمت، بلوچی ثقافتی لباس پہننے کی وجہ اور لاپتہ افراد کا تذکرہ ابتائیہ تھا۔ مریم کا خطاب کراچی اور گجرانوالہ کے مقابلے میں مختصر لیکن سخت تھا۔
مریم نواز کے فوری بعد بلاول بھٹو کا ویڈیو خطاب شروع ہوگیا۔ دونوں ویڈیو لنک خطابات لائیو نہیں تھے، ہمیں تو یہی لگا۔ بلاول کے خطاب کی ابتدا یہیں سے ہوئی کہ پی ڈی ایم اتحاد میں کوئی تقسیم نہیں بلکہ یہ اتحاد مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ دوسری جانب یہ اطلاع بھی ملی کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے میں بم دھماکہ ہوا ہے اور ہلاکتوں کی اطلاع بھی ہے۔ بہرحال جلسہ پُرامن طور پر جاری رہا۔
بلاول کے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نمازِ مغرب ادا کرنے اسٹیج کے پیچھے جاچکے تھے۔ ٹھنڈ بڑھ رہی تھی اور تیزی سے لوگ جلسہ گاہ سے نکل کر جا بھی رہے تھے اور باہر رہ جانے والے اندر آ رہے تھے۔ یعنی جیسے شفٹ لگ رہی ہو۔ محمود اچکزئی نے اپنے کارکنان سے اپیل کردی کہ مولانا کا خطاب سنے بغیر کوئی باہر نہیں جائے گا۔ دن مکمل ڈھل چکا تھا اور اندھیرا ہونے کو تھا، اس لیے یہ سوال پیدا ہورہا تھا کہ آخر مولانا کا خطاب کیسے ہوگا۔ لیکن اسٹیج سے بتایا جاچکا تھا کہ مولانا مغرب کے بعد مخاطب ہوں گے۔
تقریباً 6 بجے مولانا کا خطاب شروع ہوا۔ مولانا نے اسٹیج سے بلٹ پروف ڈائس کے بجائے عام ڈائس استعمال کرنے کا اعلان کیا تو نعرے بازی کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ مولانا نے کارکنان سے موبائل فون کی لائٹ کھولنے کی اپیل کی تو سفید جگمگ کرتی ننھی لائٹیں اندھیرے کے مقابل آگئیں۔ مولانا کی تقریر کے دوران جلسہ گاہ مکمل طور پر بھرا رہا حالانکہ جلسہ شروع ہوئے 6 گھنٹے سے زائد وقت ہوچکا تھا۔
7 بجے سے پہلے جلسہ ختم ہوگیا، لیکن موبائل اب بھی بند تھے۔ جلسے کے بعد پریس کلب کوئٹہ کا رخ کیا۔ مقامی صحافی پریشان تھے کہ اب تک فون سروس بند ہے خبر کیسے اپنے ادارے تک بھیجی جائے؟ جلسے کو تاریخی اور حاضری کے اعتبار سے کامیاب قرار دیا جا رہا تھا۔ دوسری جانب حکومتی وزرا بھی ٹی وی پر شعلہ بیانی کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ لگتا یہ ہے اپوزیشن کی تحریک اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں