• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سلیکٹڈ کو معلوم ہونا چاہیے برطانیہ قانون کے تحت چلتا ہے، مریم نواز

شائع October 24, 2020
مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے پی ڈی ایم جلسے کے لیے کوئٹہ روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کی— فوٹو: اسکرین شاٹ
مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے پی ڈی ایم جلسے کے لیے کوئٹہ روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کی— فوٹو: اسکرین شاٹ

مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ سلیکٹڈ کو پتا ہونا چاہیے کہ برطانیہ قانون کے تحت چلتا ہے اور وہاں ارشد ملک جیسے ججز نہیں ہوتے۔

پی ڈی ایم جلسے میں شرکت کے لیے کوئٹہ روانگی سے قبل اپنی رہائش گاہ جاتی امرا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے کہا کہ کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے سے میاں نواز شریف بھی تقریر کریں گے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی واپسی کیلئے برطانوی وزیر اعظم سے بات کرنا پڑی تو کروں گا، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ کل اگر آپ نے عمران خان کا انٹرویو سنا ہو تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تحریک سے کتنا بڑا اثر پڑا ہے، یہ معاملات مجھے زیادہ دیر چلتے نظر نہیں آتے۔

مریم نواز نے کہا کہ سلیکٹڈ کو پتا ہونا چاہیے کہ برطانیہ قانون کے تحت چلتا ہے، وہاں ارشد ملک جیسے ججز نہیں ہوتے، وہاں عوام کے ووٹ پر ڈاکا ڈال کر کوئی وزیر اعظم مسلط نہیں کیا جاتا اور دباؤ کے تحت ججز سے فیصلے نہیں لیے جاتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہاں جائیں تو انہیں پتا لگ جائے گا، یہ اپنی جو عزت پاکستان میں کرا چکے ہیں، اگر وہ برطانیہ میں بھی کرانا چاہتے ہیں تو بالکل ایسا کریں۔

مریم نواز نے کہا کہ ایک دفعہ یہ الطاف حسین کو بھی لانے گئے تھے، ان کی بھڑکیاں آپ سنا کریں، برطانیہ قانون کے تحت چلنے والا ملک ہے اور وہ اس طرح کی بھڑکیوں کو کچھ نہیں سمجھتا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے ہم برطانوی حکومت سے بات کررہے ہیں کیونکہ یہ جھوٹ بول کر گیا ہے، ہماری انہیں ڈی پورٹ کرنے کے لیے ان کے عہدیداروں سے مسلسل بات چل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی واقعہ بڑوں کی لڑائی ہے جس میں عمران خان کہیں نہیں، مریم نواز

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر اس کے لیے مجھے جانا پڑا تو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے بات کروں گا۔

مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے مزید کہا کہ کراچی سے جیو نیوز کے صحافی علی عمران کو غائب کردیا گیا ہے، سننے میں آیا ہے انہوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج چلا دی تھی تو ان کو اٹھا کر لے گئے، یہ بہت افسوس کی بات ہے۔

انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ آپ نے میرے کمرے پر حملہ کر کے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جس انداز میں گرفتاری کی، جس طرح سے آپ نے آئی جی کو اٹھایا، جس طرح پولیس فورس اور صوبے کو نیچا دکھایا، تو اس سے بہت زیادہ بدنامی کما لی ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ اس طرح سے اغوا کر کے اور لوگوں کو سچ اور حق بولنے کی سزا دے کر آپ مزید بدنامی نہ کمائیں، یہ غلط بات ہے، اس روایت کو ختم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: حکومت سندھ کا کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان

جنرل باجوہ کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ انکوائری کرنے کا حق حکومت سندھ کو ہے اور یہ وفاقی حکومت جعلی حکومت ہی صحیح، انہیں وزیر اعظم کے دفتر میں بیٹھ کر اسے دیکھنا چاہیے، کسی اور ادارے کو تحقیقات کا حق نہیں ہے البتہ انہیں تحقیقات میں شامل ضرور کر سکتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب عمران خان کو این آر او کی ضرورت ہے، اور کسی کو نہیں۔

میڈیا سے مزید غیررسمی گفتگو میں مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا جو فیصلہ آیا ہے اس کے بعد نہ سلیکٹڈ کو، نہ قاضی فائز عیسیٰ جیسے دیانتدار جج کے خلاف سازش کرنے والے کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق ہے۔

ان کا کہنا تھا انہوں نے نہ صرف قاضی فائز عیسیٰ جیسےدیانتدار جج کے خلاف بلکہ آزاد عدلیہ پر وار کیا تھا جس کو عدلیہ نے روکا ہے اور جو سازش کل ثابت ہو گئی ہے اس کے بعد انہیں اقتدار سے چپکے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان 5 سال پورے کریں گے تو مریم نواز نے جواب دیا کہ انشااللہ یہ سال بھی پورا نہیں کریں گے۔

کوئٹہ میں کارکنوں سے خطاب

کوئٹہ پہنچنے کے بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) اور اب پی ڈی ایم میں شامل 11 جماعتوں نے خوف کی زنجیریں توڑی ہیں، فر عونیت کو للکارا ہے اور اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ریاست کے اوپر ریاست کی بات کی اور اس کے چند دن بعد کراچی میں اس کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے اوپر ریاست یہ ہے کہ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے، عمران خان پاکستان کی سیاست اور حکومت منظر نامے سے بالکل غائب ہیں، آپ لاکھ الزام دیں حکومت کو لیکن وزیر اعظم کو بھی نہیں پتہ کہ کراچی میں اس دن کس نے کیا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو فوج نے پال کر سیاست دان بنایا، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ سب کچھ جانتی ہے اور انہوں نے ناصرف بروقت اس سازش کو بے نقاب بھی کیا بلکہ سندھ کے غیور عوام کی ترجمانی کرنے والی سندھ پولیس نے ریاست کے اوپر ریاست اور صوبے کے اوپر حملے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

انہوں نے جیو نیوز کے صحافی علی عمران نے حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہوئے کراچی کے ہوٹل میں ہم پر دھاوا بولنے کی فوٹیج چلا دی جس پر انہیں گھر سے اٹھا کر لے گئے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے سوال کیا کہ کب تک آپ ججز پر دباؤ ڈال کر ارشد ملک بناتے رہیں گے، کب تک صحافیوں کو اغوا کر کے اپنی پسند کی خبریں لوگوں کو سنواتے رہو گے، کب سیاست میں دخل انداز کرتے رہو گے، کب تک اپنی مرضی کی حکومتیں لاتے اور مٹاتے رہو گے، کب تک آپ عوام کے ووٹ، ان کی عزت کو اپنے بوٹوں تلے روندتے رہو گے، ایک نہ ایک دن اس کا اختتام ہونا ہے اور وہ وقت اب قریب ہے۔

’کٹھ پتلی حکومت سے بات کرنا بھی گناہ سمجھتی ہوں‘

بعد ازاں کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران مریم نواز نے کہا کہ صبر سے موجودہ حکومت کو کام کرنے کا وقت دیا مگر یہ ناکام رہے، اس حکومت کا اب عوام کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کی عادی نہیں اور کٹھ پتلی حکومت سے بات کرنا بھی گناہ سمجھتی ہوں، یہ حکومت جمہوری طریقے سے ہی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کا فرض ہے کہ ناراض لوگوں کو سنیں، جب کچھ غلط ہوگا تو لوگ آواز اٹھائیں گے جبکہ حقیقی سیاسی جماعتیں عوامی ردعمل کے خلاف نہیں جائیں گی۔

مریم نواز نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نامی پارٹی بنائی گئی، جن لوگوں نے ماں باپ پارٹی بنائی ان کو حساب دینا ہوگا جبکہ اگر ہم نے اسمبلیوں سے استعفے دیے تو حکومت کا کام تمام ہوجائے گا۔

بلاول بھٹو کے کوئٹہ جلسے میں شرکت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’چیئرمین پیپلز پارٹی کوئٹہ آئیں گے یا نہیں، فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتی‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں ماضی کا حصہ ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024