• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا معاملہ: سندھ پولیس کے متعدد اعلیٰ افسران کی چھٹی کی درخواستیں

شائع October 20, 2020
— فائل فوٹو / اے ایف پی
— فائل فوٹو / اے ایف پی

سندھ پولیس کے متعدد اعلیٰ افسران نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں بےجا مداخلت پر چھٹیوں کی درخواست دے دی۔

صوبائی پولیس کے 2 اے آئی جیز، 7 ڈی آئی جیز اور 6 ایس ایس پی نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس مشتاق مہر کو چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرا دیں۔

اے آئی جی اسپیشل برانچ نے 60 روز کی چھٹی کی درخواست کی ہے — امتیاز علی
اے آئی جی اسپیشل برانچ نے 60 روز کی چھٹی کی درخواست کی ہے — امتیاز علی

ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اسپیشل برانچ عمران یعقوب منہاس، اے آئی جی فرانزک سائنس ڈویژن ڈکٹر سمیع اللہ سومرو، ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز ثاقب اسمٰعیل میمن، ڈی آئی جی حیدر آباد نعیم احمد شیخ، ڈی آئی جی غربی کراچی کیپٹن ریٹائرڈ عاصم خان، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد، ڈی آئی جی جنوبی کراچی جاوید اکبر ریاض، ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب، ڈی آئی جی اسپیشل برانچ قمر الزمان، ایس ایس پی انٹیلی جنس اسپیشل برانچ توقیر محمد نعیم، ایس ایس پی شرقی کراچی ساجد عامر سدوزئی، ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل عبداللہ احمد، ایس ایس پی بدیب شبیر احمد، ایس ایس پی کورنگی کیپٹن (ر) فیصل عبداللہ اور ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں نے چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔

تمام اعلیٰ افسران کی جانب سے انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کو لکھی گئی ایک جیسی لیکن علیحدہ علیحدہ درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف حالیہ مقدمے کے اندراج کے معاملے میں کام میں بے جا مداخلت ہوئی اور پولیس کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پولیس افسران و ملازمین دل برداشتہ اور افسردہ ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دباؤ کے اس ماحول میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی مشکل ہے اور اس دباؤ سے نکلنے کے لیے رخصت درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مزار قائد کے تقدس کی پامالی کے الزام میں کیپٹن (ر) صفدر گرفتار

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں کہا کہ جو کراچی میں ہوا وہ ہمارے بیانیے ’ریاست کے اوپر ریاست ہے‘ کا کھلا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے منتخب صوبائی حکومت کے اختیارات کا مذاق اڑایا، چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا، سنیئر ترین پولیس افسران کو اغوا کر کے زبردستی آرڈر لیے، پاک فوج کو بدنام کیا، جبکہ ایڈیشنل آئی جی پولیس کا یہ خط آئین سے آپ کی بغاوت کا ثبوت ہے۔

مریم نواز نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ میں سندھ پولیس کو سلام پیش کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں کو خوف کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے، آئین کی بالادستی کے لیے کھڑا ہوتا اور ان حقوق کا مطالبہ کرتا ہوا دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے جو انہیں کبھی نہیں ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ سازش اور سازشی بری طرح بےنقاب ہوچکے ہیں اور پاکستان بدل چکا ہے۔

قبل ازیں وزیرا علیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے متعلق معاملے کی تحقیقات کے لیے وزرا پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس کی انکوائری لازمی ہے، رفقا کے ساتھ صلاح مشورے سے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت سندھ اس معاملے کی تحقیقات کرے گی جس میں 3 سے 5 وزرا شامل ہوں گے تاہم ابھی ناموں کو حتمی شکل نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پولیس اور اداروں سے پوچھیں گے اور معاملے کے حقائق سامنے لائیں گے جبکہ اس کمیٹی میں وہ ارکان ہوں گے جن کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں تھا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا 18 اکتوبر کو ہونے والا جلسہ کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا، جلسے کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے مزار قائد پر حاضری دی اور وہاں نعرے بازی ہوئی جو مناسب نہیں تھی لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہی چیزیں دیکھی گئی تھیں اور انہوں نے مزار کے تقدس کو پامال کیا۔

مزید پڑھیں: کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کیلئے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا، محمد زبیر

لیگی رہنما کی گرفتاری کا معاملہ

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے پیر کی علی الصبح سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا تھا کہ ’پولیس نے کراچی کے اس ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں میں ٹھہری ہوئی تھی اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو گرفتار کرلیا‘۔

پولیس کی جانب سے یہ گرفتاری بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے تقدس کو پامال کرنے کے الزام میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دیگر 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد سامنے آئی تھی۔

لیگی رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے لیے سندھ پولیس پر دباؤ ڈالا گیا اور ریاست نے ایک اسٹنگ آپریشن کیا۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور اگر ہم آج اس کی مذمت نہیں کریں گے تو کل ہم سب کو اس سے گزرنا پڑے گا۔

بعد ازاں صحافی کی جانب سے شیئر کردہ آڈیو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ’مراد علی شاہ نے انہیں ابھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ گرفتاری کے لیے بھیجیں‘۔

ممکنہ طور پر محمد زبیر کی آڈیو میں کہا گیا کہ ’جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے اغوا کیا ہے اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے جبکہ انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ کا کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا اعلان

دوسری جانب پریس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 'صبح فجر کی نماز کے بعد ہم سو رہے تھے کہ تقریباً سوا 6 کا وقت تھا اور کوئی ہمارے دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹا رہا تھا اور جب صفدر نے دروازہ کھولا تو باہر پولیس کھڑی تھی اور انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو گرفتار کرنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صفدر نے کہا کہ میں کپڑے تبدیل کرکے آتا ہوں اور کپڑے تبدیل کررہے تھے کہ کچھ لوگ زبردستی سے دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور انہیں گرفتار کرکے لے گئے حالانکہ صفدر نے کہا کہ اندر مت آئیں میں دوائی لے کر آتا ہوں لیکن وہ گرفتار کرکے لے گئے۔

کراچی کے ضلع شرقی کے پولیس تھانہ بریگیڈ میں وقاص احمد نامی شخص کی مدعیت میں مزار قائد کے تقدس کی پامالی اور قبر کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔

مذکورہ مقدمہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دیگر 200 نامعلوم افراد کے خلاف قائداعظم مزار پروٹیکشن اینڈ مینٹیننس آرڈیننس 1971 کی دفعات 6، 8 اور 10 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506-بی کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں مدعی نے دعویٰ کیا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر اور ان کے 200 ساتھیوں نے مزار قائد کا تقدس پامال، قبر کی بے حرمتی، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کی۔

تاہم پیر کو ہی جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی وزیر حسین میمن نے ایک لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت پر رہائی منظور کر لی تھی۔

مزید پڑھیں: گرفتار کیپٹن (ر) محمد صفدر کی ضمانت منظور

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور دیگر رہنما 18 اکتوبر کو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے میں شرکت کے لیے کراچی پہنچے تھے۔

باغ جناح میں ہونے والے جلسے میں شرکت سے قبل رہنماؤں اور کارکنان نے مزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی تھی، جیسے ہی فاتحہ ختم ہوئی تو قبر کے اطراف میں نصب لوہے کے جنگلے کے باہر کھڑے مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے مریم نواز کے حق میں نعرے لگانے شروع کیے تھے، جس پر کیپٹن (ر) صفدر نے بظاہر مزار قائد پر اس طرح کے نعرے لگانے سے روکنے کا اشارہ کر کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگایا جبکہ یہ بھی مزار قائد کے پروٹوکول کے خلاف تھا۔

اس دوران مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما خاموش کھڑے رہے لیکن کیپٹن (ر) نے ایک اور نعرہ لگانا شروع کردیا ’مادر ملت زندہ باد‘ اور ہجوم نے بھی اس پر جذباتی رد عمل دیا۔

یہ صورتحال چند لمحوں تک جاری رہی تھی جس کے بعد مریم نواز اور دیگر افراد احاطے سے نکل گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024