پارلیمنٹ حملہ کیس کا فیصلہ 29 اکتوبر کو سنائے جانے کا امکان
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے پارلیمنٹ حملہ کیس سے وزیراعظم عمران خان کی بریت سے متعلق درخواست کا فیصلہ 29 اکتوبر کو سنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اے ٹی سی جج رانا جواد عباس حسن نے درخواست کی سماعت کے دوران وکیل دفاع کو فیصلہ سنائے جانے سے قبل تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج نے پی ٹی وی حملہ کیس سے عمران خان کی بریت کا کیس الگ کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:پارلیمنٹ حملہ کیس: عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
عدالت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے 2014 کے دھرنے کے دوران تشدد سے متعلق کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی بریت پر بھی فیصلہ سنائے گی۔
سماعت میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر علیم خان کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔
درخواست کے مطابق علیم خان کورونا وائرس سے متاثر ہیں اس لیے ذاتی حیثیت میں پیش نہیں ہوسکتے، جس پر جج نے وکیل سے میڈیکل رپورٹ طلب کرلی۔
پی ٹی وی حملہ کیس میں عدالت نے وزیراعظم کے وکیل کو 12 نومبر تک دلائل سمیٹنے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں: ایس ایس پی تشدد کیس: عمران خان کو بری کردیا
وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف کوئی مواد ریکارڈ پر موجود نہیں اور ان کے خلاف سیاسی وجوہات کی بنا پر کیس بنایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے خاص طور پر پارٹی کارکنان کو پر امن رہنے اور دھرنے کے دوران تشدد کا سہارا نہ لینے کی ہدایت کی تھی۔
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کرنے والے شرپسند پی ٹی آئی یا عوامی تحریک کے کارکنان نہیں تھے۔
انہوں نے واقعے سے متعلق پیش کی گئی ضمنی رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے دیگر قائدین کو بری الذمہ قرار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ کیس: شیریں مزاری بے قصور قرار
جج رانا جواد عباس نے وکیل کو عدالتی ریکارڈ کے لیے ضمنی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی اور ریمارکس دیے کہ پروسیکیوشن نے خود اس کیس کی مزید کارروائی کے لیے عدم دلچسپی ظاہر کی ہے۔
یاد رہے کہ مئی 2018 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو پر تشدد کے کیس سے عمران خان کو بری کردیا تھا۔
پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، اور رہنماؤں ڈاکٹر عارف علوی،اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ لاگو کیا تھا۔
پروسیکیوشن کے پرانے مؤقف کے مطابق 3 افراد ہلاک، 26 زخمی ہوئے تھے جبکہ 60 کو گرفتار کیا گیا تھا، اس کیس کو برقرار رکھنے کے لیے پروسیکیوشن نے 65 تصاویر، لاٹھیاں اور کٹر وغیرہ بھی عدالت میں پیش کیے تھے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی دھرنا کیس: تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت حاضری سے مستثنیٰ قرار
پروسیکیوشن کا مؤقف یہ تھا کہ احتجاج پر امن نہیں تھا۔
یاد رہے کہ 31 اگست 2014 کو پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب مارچ کیا تھا اور اس دوران شاہراہ دستور پر ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی تھی۔
یہ خبر 20 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔