افغان ٹرانزٹ تجارت میں برآمد کنندگان کے مفاد کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، مشیر تجارت
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے مقامی برآمد کنندگان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے (اے پی ٹی ٹی اے) میں مجوزہ ترامیم کا معاملہ اٹھایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رکن قومی اسمبلی نوید قمر کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تاکہ اے پی ٹی ٹی اے 2010 میں نظرثانی کی افغان حکومت کے مجوزہ مطالبات پر وزارت تجارت سے رائے لی جائے۔
مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کمیٹی کو مجوزہ ترامیم کے وسیع تر تناظر سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ’ہم اپنا جواب عوامی سطح پر شیئر نہیں کرسکتے ہیں‘۔
مزید پڑھیں: گوادر بندرگاہ پر افغانستان کیلئے بھاری مقدار میں اشیائے خوراک درآمد کرنے کی اجازت
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ان کی وزارت اس معاملے کی حساسیت کی وجہ سے ان کے مطالبات پر پاکستان کے ردعمل کے بارے میں کمیٹی کو ان کیمرا بریفنگ دے سکتی ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان نے اسلام آباد سے کہا تھا کہ وہ واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی اشیا کو افغانستان تک جانے کی اجازت دے۔
کابل چاہتا ہے کہ پاکستان باضابطہ طور پر بھارت کو راہداری معاہدے میں شامل کرے۔
دوسرا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ سامان کی نقل و حمل کے لیے مقامی ٹرانسپورٹ کے استعمال کی اجازت دی جائے۔
اس وقت ٹرانزٹ سامان کا زیادہ تر حصہ ٹرکوں کے ذریعے طورخم اور چمن بارڈر اسٹیشنز تک پہنچایا جاتا ہے۔
کابل نے ریلوے کو نقل و حمل کے لیے استعمال کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
وزارت تجارت نے کمیٹی کو اے پی ٹی ٹی اے 2010 کے بارے میں آگاہ کیا۔
کمیٹی نے افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ تجارت میں ادارہ جاتی انتظامات، چیلنجز اور امور پر تبادلہ خیال کیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاہدے پر مؤثر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈینیشن اتھارٹی (اے پی ٹی ٹی سی اے) تشکیل دی گئی ہے تاہم کئی ماہ گزرنے کے باوجود اب تک اے پی ٹی ٹی سی اے کا اجلاس نہیں ہوسکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، افغانستان باہمی روابط کے فریم ورک کو فروغ دینے پر متفق
وزارت نے مزید کہا کہ پاک افغان ٹرانزٹ تجارت میں مایوس کن عوامل میں سے ایک پاکستانی بندرگاہوں پر کارگو کو سنبھالنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے ٹرمینل چارجز زیادہ ہونا ہیں۔
ملک میں پورٹ چارجز زیادہ ہونے کی بڑی وجوہات میں سے غیر مسابقتی ماحول، گوادر بندرگاہ کا ناجائز استعمال اور ٹرمینل آپریٹرز اور جہاز رانی کی لائنز کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایک ریگولیٹری میکانزم کی کمی کی وجہ ہیں۔
وزارت کا کہنا تھا کہ کسٹم دستاویزات کی ہم آہنگی کا فقدان ایک اور مسئلہ ہے جو ٹرانزٹ کی باقاعدگی سے بروقت تکمیل میں رکاوٹ ہے۔
نوید قمر نے وزارت تجارت کو ہدایت کی کہ اگلا معاہدہ جامع ہونا چاہیے جس میں پاکستانی برآمد کنندگان کو ترجیحی بنیاد پر سہولت فراہم کی جائیں۔
خیال رہے کہ افغانستان، پاکستانی اشیا کے لیے امریکا کے بعد دوسری سب سے بڑی منڈی تھی تاہم کابل سے برآمدی آمدنی مختلف عوامل کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں سے آہستہ آہستہ کم ہوکر ایک ارب ڈالر ہوگئی ہے۔