سی ڈی اے کا سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ فعال کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے 2 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے ترک شدہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کو دوبارہ فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتھارٹی نے گزشتہ روز یہ اعلان کیا تھا کہ پلانٹ کو 3 ماہ کے اندر فعال بنایا جائے گا۔
واضح رہے یہ پلانٹ 2009 میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت فرانسیسی حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے فنڈز سے قائم کیا گیا تھا، پلانٹ صرف کچھ سال تک فعال رہا تھا جس کے بعد اسے ناقص آلات اور سیوریج کے ناکافی یا عدم بہاؤ کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔
اس سیوریج پلانٹ کو 25 سیکٹرز کے سیوریج واٹر کو صاف کرنے کے بعد اسے عوامی پارکس، پلے گراؤنڈز، گرین بیلٹس اور زرعی زمین کو فراہم کرنا تھا جبکہ پانی صاف ہونے کے بعد سیوریج کے باقی پانیکو نالہ لئی میں بہایا جانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں صاف پانی کا منصوبہ کس طرح بربادی کا شکار ہوا
تاہم یہ پلانٹ کبھی بھی مناسب طریقے سے فعال نہیں رہا اور اسے برسوں تک نظر انداز کیا گیا تھا۔
پلانٹ کے افتتاح کے بعد کسی سی ڈی اے افسران نے اس کا دورہ اس وقت تک نہیں کیا تھا جب چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد نے اچانک اس پلانٹ کا دورہ کیا اور انہیں معلوم ہوا اس پلانٹ کو سالوں سے بند کیا جاچکا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ 'میں نے متعلقہ حکام سے ترک کیے گئے پلانٹ کو 3 ماہ میں فعال بنانے کی ہدایت کردی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ پلانٹ شروع میں اپنی صلاحیت کے 25 فیصد سیوریج واٹر کو صاف کرے گا جس کے بعد اس صلاحیت کو آئندہ 3 ماہ میں 50 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔
منصوبے کے مطابق سملی ڈیم کے بجائے 8 ملین گیلن یومیہ سیوریج واٹر کو صاف کرکے آبپاشی اور شجرکاری کے لیے استعمال کیا جائے گا جس کے نتیجے میں اسلام آباد کے رہائشیوں کے لیے صاف پانی کی فراہمی بڑھ جائے گی۔
مزید پڑھیں: زبردست بارشوں سے آبی ذخائر کی سطح میں ریکارڈ اضافہ
چیئرمین سی ڈی اے کا پلانٹ ملازمین کے الانسز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی بورڈ اس سے متعلق فیصلہ کرے گا کہ اس پلانٹ کے افسران جو اپنی تعیناتی سے نالاں تھے 'انہیں خصوصی الاؤنس دیے جائیں گے لیکن انہیں کار کردگی دکھانی ہوگی'۔
انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے بورڈ پلانٹ کے ملازمین کے الاؤنسز کے حجم کا فیصلہ جلد کرے گا۔
اتھارٹی میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ پلانٹ کے بند ہونے سے پہلے اسے اپنی ایک کروڑ 70 لاکھ گیلن سیوریج واٹر کی صلاحیت کے بجائے صرف 20 لاکھ گیلن سیوریج واٹر موصول ہوتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پلانٹ کو کبھی مناسب پانی نہیں ملا جس کی وجہ مختلف سیکٹر اہم ٹرکس کے ناقص معیار اور بے ہنگم نیٹ ورک تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ہمارے پاس ڈیم بنانا ہی واحد اور آخری حل ہے؟
اس مسئلے کی نشاندہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے 2017 کی آڈٹ رپورٹ میں کی گئی تھی، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 'آڈٹ میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ نہ آلودہ پانی کو پی سی-ون کے منظور شدہ معیار کے بائیو کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی او ڈی) کے تحت خارج کیا جارہا تھا اور نہ ہی پانی کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدگی سے اس کا بی او ڈی لیب ٹیسٹ کروایا جاریا تھا'۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ صاف کیے گئے سیوریج واٹر اور نالہ لئی میں گندگی کے بہاؤ کی صداقت کا تعین نہیں کیا جاسکا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان نئے ڈیم نہ بنا کر کیا قیمت چکا رہا ہے؟
گزشتہ روز جاری کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیئرمین نے سی ڈی اے نے گزشتہ روز اچانک ایس ٹی پی کا دورہ کیا تھا، اس موقع پر سی ڈی اے کے ممبر خزانہ، ڈائریکٹر ایس ٹی پی، ڈائریکٹرز ماحولیات، ڈائریکٹر روڈ مینٹیننس اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سی ڈی اے چیئرمین نے ہدایت کی ہے کہ پلانٹ کی مرمت اور بحالی کا کام فوری شروع کیا جائے اور تمام خراب موٹرز اور سسٹمز کی مرمت کی جانی چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے سیوریج نیٹ ورک کو فوری طور پر ٹھیک کرنے کی ہدایت بھی کی۔
یہ خبر 19 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔