قانون میں قومی اداروں سے متعلق ’ریڈ لائنز‘ موجود ہیں، وفاقی وزیر فروغ نسیم
کراچی: وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ حکومت کا بنیادی ایجنڈا قانون کی حکمرانی کو (فروغ دینا) ہے اور قانون کے تحت قومی اداروں سے متعلق کچھ ’ریڈ لائنز‘ (سرخ لکیریں) موجود ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی ہوٹل میں ایک جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت آئین نظام (کے فروغ) کے لیے کام کر رہی اور عام آدمی کے بنیادی حقوق اور کرپشن کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے بظاہر سابق وزیراعظم نواز شریف کی جمعہ کو گوجرانوالہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پہلے جلسے سے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز کسی نے کہا تھا کہ پاناما لیکس ایک سازش تھی جبکہ قومی اداروں پر تنقید بھی کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: فروغ نسیم ایک مرتبہ پھر وفاقی کابینہ کا حصہ
ان کا کہنا تھا کہ اس بیانیے کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ دنیا بھر میں مختلف ممالک کے رہنماؤں کے نام بھی پاناما پیپز میں آئے تھے جس میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم کا نام بھی شامل تھا اور ان سب نے (پاناما پیپرز میں اپنے ناموں کے ظاہر ہونے سے متعلق) وضاحت دی تھی۔
وفاقی وزیر نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ یا انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹینٹنٹ جنرل فیض حمید نے کسی کو ایون فیلڈ (لندن) میں اپارٹمنٹس خریدنے اور منی ٹریل فراہم نہ کرنے کا کہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کے چیئرمین ایک ایماندار شخص ہیں، مزید یہ کہ وہ کرپشن کے خلاف آزادانہ کام کر رہا ہے اور حکومت کا اس معاملے میں کوئی ایجنڈا نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو ہٹانے سے متعلق فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ اسے حکومت کے ساتھ جوڑتے ہیں لیکن ملک کی عدلیہ آزاد تھی، سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے سابق جج سے متعلق اس معاملے کا نوٹس لیا اور فیصلہ کیا تاہم اب سابق جج نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔
وفاقی وزیر کے مطابق سابق امریکی صدر جورج ڈبلیو بش اور صدارتی اُمیدوار ال گور کے درمیان انتخاب کے تنازع کا فیصلہ عدلیہ نے کیا تھا لیکن کسی نے ججز پر تنقید نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے، عدلیہ اور دیگر اداروں کا احترام نہیں کیا تو لوگ ان کے بیانیے کو مسترد کردیں گے۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کے خلاف کیس کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مدت کے دوران ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے مطابق ہر کسی کو بیرون ملک اثاثوں کے لیے منی ٹریل پیش کرنی پڑتی ہے اور اس نوعیت کے پہلے کیس کا فیصلہ 1971 میں لاہور ہائیکورٹ کے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے دیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’ہماری حکومت معاشی اور مہنگائی کے چیلنج سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے اور یہ سابق حکمرانوں کی منی لانڈرنگ اور کرپشن کی وجہ سے ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بار کونسل کا فروغ نسیم کو وزیر قانون کے منصب سے فوری ہٹانے کا مطالبہ
انہوں نے کہا کہ وزارت مختلف قوانین کے لیے قانونی اصلاحات پر کام کر رہی اور مختلف قوانین میں ترمیم کی جاچکی ہے، مثال کے طور پر وراثت سے متعلق قانون میں ترمیم ہوچکی اور اب اس سلسلے میں آپ کو عدالت جانے کی ضرورت نہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ قومی رجسٹریشن اور ڈیٹا بیس اتھارٹی درخواست جمع کرانے کے 15 دن میں ان معاملات کو حل کرے گی۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سول پروسیجر کوڈ کے لیے مختلف ترامیم بھی تیار کی گئی تھیں اور اب سول کیسز کا فیصلہ 20 سے 30 برسوں کے بجائے 2 سے 3 سال کے عرصے میں ہوگا۔
یہ خبر 18 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔